تشریح:
(1) محقق کتاب نے مذکورہ روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے آخری لفظ [وَالسُّرُجَ] ”چراغ“ کے علاوہ باقی روایت کو شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے۔ اور دلائل کی رو سے انھی کی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔ نیز زائرات القبور کی بجائے زوارات القبور کے الفاظ صحیح ثابت ہیں، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو کثرت سے قبرستان جاتی ہیں۔ بنا بریں عورتوں کے لیے بھی زیارت قبور ویسے ہی مستحب ہے جیسے مردوں کے لیے۔ عورتوں کا خصوصی ذکر اس لیے کہ ان میں صبر اور حوصلے کی کمی ہوتی ہے۔ جزع فزع زیادہ ہوتی ہے، لہٰذا کبھی کبھار ہی جائیں مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: ۳۶۵-۳۶۳/۴، و سلسلة الأحادیث الضعیفة: ۳۹۶-۳۹۳/۱، رقم: ۲۲۵، و أحکام الجنائز للألباني، ص:۲۳۷-۲۳۶)
(2) قبروں پر عبادت گاہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ وہاں نماز وغیرہ پڑھے جس میں قبر کی طرف نماز پڑھے جانے کا بھی امکان ہو۔ قبر پر مکان بنا ہو تو اس کا حکم بھی قبر جیسا ہے، یعنی اس کی طرف بھی نماز پڑھنا منع ہے۔ قبر کے قریب مسجد بنانا بھی کراہت سے خالی نہیں۔ یہ ایسے ہے جیسے نجاست کے قریب نماز پڑھی جائے کہ نماز تو ہو جائے گی مگر قبیح چیز ہے۔ قبر، مساجد بلکہ آبادی سے الگ اور دور بنانی چاہیے۔ قبر کے اوپر عمارت، خواہ وہ قبر کی حفاظت کے لیے ہو یا زائر کی سہولت کے لیے، منع ہے۔ اگر قبر پہلے سے ہو تو عمارت ڈھا دینی چاہیے اور اگر عمارت پہلے تھی تو قبر کو اکھاڑ دینا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر جو عمارت بنی ہوئی ہے، وہ صدیوں بعد سلاطین کی تعمیر کردہ ہے، ورنہ صحابہ و تابعین کے دور میں ایسا نہیں تھا، اس لیے اس سے قبروں پر عمارتیں بنانے پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
(3) حدیث کے آخری جملے [وَالسُّراجَ] یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چراغ جلانے والوں پر لعنت کی ہے۔“ کی تصعیف سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس کی ممانعت ثابت نہیں بلکہ عمومی دلائل سے اس کی ممانعت ثابت ہوتی ہے، مثلاً: كلُّ بدعةٍ ضلالةٌ وَكلُّ ضلالةٍ في النّارِ کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے، نیز قبر پر چراغ جلانا یا تو قبر کی تعظیم کے لیے ہوگا تو ایسی تعظیم منع ہے بلکہ یہ تو قبر پر چڑھاوے کی طرح ہے، یا بے فائدہ ہوگا۔ قبروں پر روشنی کی ضرورت نہیں، ان کے اندر روشنی کی ضرورت ہے اور وہ اعمال صالحہ کے ساتھ ہے۔ اگر آنے جانے والوں کے لیے روشنی کرنا مقصود ہو تو قبر کے بجائے کسی اور چیز پر روشنی کا انتظام کیا جائے تاکہ تعظیم کا وہم نہ ہو۔ واللہ أعلم۔
الحکم التفصیلی:
قلت : وذلك لضعفه وأما الترمذي فقال : ( حديث حسن وأبو صالح هذا هو مولى أم هانئ بنت أبي طالب واسمه باذان ويقال : باذام أيضا " . قلت : وقد ضعفه جمهور العلماء ولم يوثقه أحد إلا العجلي وحده كما قال الحافظ في " التهذيب " بل كذبه اسماعيل أبي خالد والأزدي ووصمه بعضهم بالتدليس وقال الحافظ في " التقريب " : " ضعيف مدلس " . وكأنه لهذا قال ابن الملقن في " خلاصة البدر المنير " ( ق 59 / 1 ) بعد أن حكى تحسين الترمذي للحديث : " قلت : فيه وقفة لنكتة ذكرتها في الأصل ( يعني البدر المنير ) ولم أقف عليه لنقف على بيان هذه النكتة ولا يبعد أن يعني بها ضعف أبي صالح المذكور وبه أعله عبد الحق الأشبيلي في " أحكامه الكبرى " ( 80 / 1 ) فقال : ( وهو عندهم ضعيف جدا ) ومن ذلك تعلم ما في تحسين الترمذي للحديث من تساهل وإن تبعه عليه
العلامة أحمد شاكر رحمه الله تعالى فإنه - عندي - من المتساهلن في التوثيق والتصحيح . فإن قيل : لعل الترمذي إنما حسنه لشواهده لا لذاته ؟ . قلت : ذلك محتمل والواقع أن الحديث له شواهد كثيرة في جملتيه الأوليين وأما ( السرج ) فليس لها شاهد البتة فيما علمت ولذا لا يمكن القول بتحسين الحديث بتمامه بل باستثناء السرج وقد ذكرت الشواهد المشار إليها في كتابي " تحذير الساجد من اتخاذ القبور مساجد " وباختصار في " الأحاديث الضعيفة " ( رقم 223 ) فليرجع إليهما من شاء .قلت : وذلك لضعفه وأما الترمذي فقال : ( حديث حسن وأبو صالح هذا هو مولى أم هانئ بنت أبي طالب واسمه باذان ويقال : باذام أيضا " . قلت : وقد ضعفه جمهور العلماء ولم يوثقه أحد إلا العجلي وحده كما قال الحافظ في " التهذيب " بل كذبه اسماعيل أبي خالد والأزدي ووصمه بعضهم بالتدليس وقال الحافظ في " التقريب " : " ضعيف مدلس " . وكأنه لهذا قال ابن الملقن في " خلاصة البدر المنير " ( ق 59 / 1 ) بعد أن حكى تحسين الترمذي للحديث : " قلت : فيه وقفة لنكتة ذكرتها في الأصل ( يعني البدر المنير ) ولم أقف عليه لنقف على بيان هذه النكتة ولا يبعد أن يعني بها ضعف أبي صالح المذكور وبه أعله عبد الحق الأشبيلي في " أحكامه الكبرى " ( 80 / 1 ) فقال : ( وهو عندهم ضعيف جدا ) ومن ذلك تعلم ما في تحسين الترمذي للحديث من تساهل وإن تبعه عليه
العلامة أحمد شاكر رحمه الله تعالى فإنه - عندي - من المتساهلن في التوثيق والتصحيح . فإن قيل : لعل الترمذي إنما حسنه لشواهده لا لذاته ؟ . قلت : ذلك محتمل والواقع أن الحديث له شواهد كثيرة في جملتيه الأوليين وأما ( السرج ) فليس لها شاهد البتة فيما علمت ولذا لا يمكن القول بتحسين الحديث بتمامه بل باستثناء السرج وقد ذكرت الشواهد المشار إليها في كتابي " تحذير الساجد من اتخاذ القبور مساجد " وباختصار في " الأحاديث الضعيفة " ( رقم 223 ) فليرجع إليهما من شاء .