تشریح:
(1) فرشتوں کا آنا، اسے بٹھانا اور پھر سوال و جواب کرنا اور دیگر باتیں برزخی احوال ہیں۔ اس کا دنیوی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ برزخی زندگی کی حقیقت تو بیان نہیں کی جا سکتی کہ وہ ہماری عقل و حواص سے ماوراء ہے، البتہ اس کی مثال خواب سے دی جا سکتی ہے کہ خواب دیکھنے والا آدمی اپنے خواب میں بولتا بھی ہے، سنتا بھی ہے، چلتا پھرتا بھی ہے، روتا ہنستا، کھاتا پیتا اور دوڑتا بھاگتا بھی ہے لیکن اس کا جسم بالکل ساکن ہوتا ہے۔ اس کے جسم کو دیکھ کر کوئی شخص یہ نہیں سمجھ سکتا کہ وہ خواب کی دنیا میں اتنا کچھ کر رہا ہے۔ میت کا حال بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔
(2) ”اس آدمی“ سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ گویا یہ ذہنی اشارہ ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ میت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دکھائے جاتے ہیں مگر اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ بالفرض ایسا ہو تو وہ آپ کا تصور ہوگا جو اس کے ذہن میں ڈالا جائے گا نہ کہ آپ کا حقیقی وجود، جیسے ٹی وی وغیرہ میں ہوتا ہے، یعنی اس سے آپ حاضر و ناظر ثابت نہ ہوسکیں گے۔
(3) ”دونوں کو دیکھتا ہے“ صحیح حدیث ہے کہ ہر شخص کا جنت میں بھی ٹھکانا ہے اور جہنم میں بھی لیکن جہنم میں جانے والے چونکہ جنت میں جانے کا استحقاق کھو بیٹھتا ہے، اس لیے وہ جنتی ٹھکانے سے محروم ہو جاتا ہے اور جنت میں جانے والا اپنے عمل کی وجہ سے جہنم سے بچ جاتا ہے تو وہ جہنمی ٹھکانے سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ جعلنا اللہ منھم۔