تشریح:
(1) ”ابن جمیل“ یہ منافق شخض تھا۔ زکاۃ کو تاوان سمجھتا تھا، اس لیے آپ نے اس کے متعلق یہ الفاظ فرمائے۔ کہتے ہیں کہ بعد میں اس نے توبہ کر لی تھی۔
(2) ”وقف کر رکھا ہے۔“ گویا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگی ساز وسامان کی زکاۃ طلب کی تھی کہ شاید یہ مال تجارت کے لیے ہے، حالانکہ وہ تو فی سبیل اللہ وقف تھا اور وقف مال میں زکاۃ نہیں ہوتی۔ یا نبی اکرم ﷺ کا مطلب یہ ہے کہ خالد تو اس قدر مخلص ہیں کہ انھوں نے اپنا سارا جنگی سامان وقف کر رکھا ہے، وہ زکاۃ سے انکار کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ مطلب بھی تو ہو سکتا ہے کہ انھوں نے زکاۃ کی رقم سے جنگی سامان خرید کر وقف کر دیا ہے، لہٰذا ان سے زکاۃ نہ مانگی جائے۔
(3) بعض دوسری روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے رسول اللہﷺ دو سال کی زکاۃ کسی ملکی ضرورت کی وجہ سے پیشگی وصول کر چکے تھے، لہٰذا یہ صراحت فرمائی ورنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ زکاۃ سے کیسے انکار کر سکتے تھے؟
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجه مسلم بتمامه.
وصحح الترمذي الجملةَ الأخيرةَ منه. وأخرجه البخاري بنحوه- دون الجملة
المذكورة- بلفظ: " فهي عليه "، وهو الأرجح) .
إسناده: حدثنا الحسن بن الصبَّاح: ثنا شَبَابَةُ عن وَرْقَاءَ عن أبي الزناد عن
الأعرج عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ وقد أخرجه
مسلم كما يأتي.
والحديث أخرجه مسلم وأحمد وغيرهما من طرق أخرى عن ورقاء... به.
والبخاري وغيره من طريق شعيب بن أبي حمزة عن أبي الزناد... به نحوه؛
دون قوله: " أما شعرت... "؛ وقال:
" فهي عليه صدقة، ومثلها معها "؛ مكان قوله: " فهي علي ومثلها ".
وهو الأرجح عندي؛ لأن لشعيب فيه متابِعَيْنِ عليه، ذكرتهما في " الإرواء"
(858) ، وخرجت أحاديثهم، وما رجحه البيهقي هناك.