تشریح:
(1) اس سے ماقبل احادیث میں عشر والی فصل کا نصاب بیان کیا گیا تھا کہ کتنی فصل میں زکاۃ آئے گی؟ اس حدیث میں اس کی مقدار بیان کی گئی ہے کہ کتنی زکاۃ آئے گی؟
(2) باقی تمام چیزوں میں زکاۃ سال کے بعد واجب ہوتی ہے، مثلاً: جانور، سونا، چاندی، رقم اور سامان تجارت، مگر غلہ اور پھلوں، یعنی فصل کی زکاۃ اس کی پیداوار کے موقع پر ہوتی ہے، اس کے لیے ایک سال کی قید نہیں۔ عموماً ہر فصل سال میں ایک دفعہ ہی ہوتی ہے، اس لیے گویا اس میں بھی زکاۃ سال بعد ہی ہوئی، البتہ ادائیگی فصل کی کٹائی کے موقع ہی پر واجب ہوتی ہے۔
(3) جانوروں کی زکاۃ مخصوص ہے جو تفصیل سے پیچھے بیان ہوئی سونا، چاندی، رقم اور سامان تجارت کی زکاۃ کل مالیت کا چالیسواں حصہ ہوتی ہے لیکن فصل کی زکاۃ دسواں اور بیسواں حصہ ہوتی ہے اور اسے عموماً عشر کہا جاتا ہے۔
(4) فصل کی زکاۃ پانی کے لحاظ سے ہے۔ چونکہ فصل پانی کے بغیر نہیں ہوتی، لہٰذا پانی کا لحاظ ناگزیر تھا۔ اس سلسلے میں ضابطہ یہ ہے کہ جس پانی کے مہیا کرنے میں کوئی مشقت نہ ہو اور نہ اخراجات کرنے پڑتے ہوں، اس سے سیراب ہونے والی فصل کا دسواں حصہ (عشر بطور زکاۃ دینا ہوگا، مثلاً: بارش، دریاؤں، اور چشموں کا پانی اپنے آپ نظام کائنات کے تحت فصل تک پہنچتا ہے، صرف پانی کو روکنا، موڑنا اور کھولنا ہی پڑتا ہے اور یہ کوئی مشقت نہیں، کوئی زیادہ اخراجات بھی نہیں آتے، لہٰزا اس میں زکاۃ کی مقدار زیادہ رکھی گئی۔ اور جس پانی کے مہیا کرنے میں زیادہ مشقت ہو یا اخراجات کرنے پڑتے ہوں، اس سے سیراب ہونے والی فصل میں بیسواں حصہ (نصف عشر زکاۃ لاگو ہوگی، مثلاً: کنویں سے پانی نکالنا بہت مشقت کا کام ہے، خواہ ڈول کے ذریعے سے نکالا جائے یا جانور کے ذریعے سے یا ٹیوب ویلوں کے ذریعے سے۔ اسی طرح اگر پانی دور سے مشکیزوں یا برتنوں میں لا کر فصل سیراب کرنی پڑے تو بھی بہت مشقت ہے، نیز اس میں اخراجات بھی کرنے پڑتے ہیں اور جانوروں کو استعمال کرنا پڑتا ہے، لہٰذا ان میں زکاۃ کی مقدار کم رکھی گئی ہے۔
(5) بعض علاقوں میں نہری پانی ہوتا ہے، اپنے آپ پہنچتا ہے مگر آبیانہ دینا پڑتا ہے۔ اسی طرح اگر نہری پانی کے ساتھ ساتھ ٹیوب ویل کا پانی بھی لگانا پڑتا ہو جس میں بہت اخراجات آتے ہیں یا فصل صرف ٹیوب ویل کے ذریعے سے سیراب ہوتی ہو تو ان صورتوں میں بیسواں حصہ زکاۃ ہوگی۔ ٹیوب ویل، کنویں اور رہٹ کے حکم میں ہے۔
(6) زکاۃ کس فصل میں ہے؟ یہ کافی اختلافی مسئلہ ہے، البتہ غلہ جات پر عشر متفقہ ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے ہر اس فصل پر زکاۃ واجب کی ہے جو خوراک ہو اور اسے ذخیرہ کیا جا سکے۔ احناف نے ماپی اور تولی جانے والی چیز میں زکاۃ واجب کی ہے بشرطیکہ اسے ذخیرہ کیا جا سکے، خوراک ہونا ضروری نہیں۔ جمہور اہل علم نے ذخیرہ ہو سکنے کو شرط مانا ہے۔ باقی رہے وہ پھل اور سبزیاں جو ذخیرہ نہیں ہو سکتے، جمہور کے نزدیک ان میں عشر نہیں، البتہ جن پھلوں کو کسی طریقے سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے، ان میں عشر ہے، مثلاً: انگور کو منقیٰ کی صورت میں محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ خوبانیوں کو بھی خشک کیا جا سکتا ہے۔ کماد کو چونکہ چینی شکر اور گڑ کی صورت میں محفوظ کیا جا سکتا ہے، لہٰذا اس پر بھی عشر ہے۔ کپاس بھی قابل ذخیرہ چیز ہے، لہٰذا اس میں بھی عشر ہے، البتہ اس کے نصاب میں اختلاف ہے۔ اجتہاد کے ذریعے سے اس کے قلیل وکثیر میں فرق کیا جا سکتا ہے۔ چارہ وغیرہ جو جانوروں کے لیے کاشت کیا جاتا ہے، عشر سے مستثنیٰ ہے کیونکہ یہ وقتی ضرورت کے لیے ہے۔
(7) اس روایت کے ظاہر سے استدلال کرتے ہوئے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ زمین کی ہر قلیل اور کثیر پیداوار میں عشر ہے، مگر نصاب کے بارے میں صریح روایات اس استدلال کے خلاف ہیں۔ یہ بحث پیچھے گزر چکی ہے۔ جب باقی چیزوں، مثلاً: سونے، چاندی اور جانوروں وغیرہ میں نصاب معتبر ہے تو کیا وجہ ہے کہ فصل میں نصاب معتبر نہ ہو؟