Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: How Much Is A Sa'?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2526.
حضرت سائب بن یزید بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے دور میں صاع تمھارے آج کل کے حساب سے ایک مد اور ایک تہائی مد کے برابر تھا۔ اب اس (مد کی مقدار) میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ امام ابوعبدالرحمن (نسائی) ؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث زیاد بن ایوب نے بھی بیان کی ہے۔
تشریح:
پیمانے اور وزن ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں، ایک جیسے نہیں رہتے، مد، صاع، درہم اور مثقال بھی چھوٹے بڑے ہوتے رہے ہیں۔ ظاہر ہے شریعت میں معتبر پیمانہ اور وزن تو وہی ہے جو رسول اللہﷺ کے دور میں تھا۔ آپ کے دور میں صاع چار مد کا تھا اور ایک مد وزن کے لحاظ سے ایک اور تہائی رطل 11/3 کا تھا۔ اسی طرح صاع پانچ رطل اور تہائی رطل کا تھا، یعنی 51/3 رطل۔ اور رطل 90 مثقال کا۔ اس لحاظ سے صاع کے وزن کی تفصیل حدیث 2515 میں گزر چکی ہے جو تقریباً ڈھائی کلو بنتا ہے۔ بعد میں مد اور صاع بڑا بنا دیا گیا۔ مد بجائے 11/3 رطل کے 23 رطل کا کر دیا گیا۔ اسی طرح صاع آٹھ رطل کا ہوگیا۔ احناف نے اس صاع کو اختیار کیا ہے، حالانکہ وہ صاع نبوی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ جب مدینہ منورہ گئے اور ان کا امام مالک رحمہ اللہ سے اس سلسلے میں مباحثہ ہوا تو انھوں نے اپنے مسلک سے رجوع کر لیا کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ نے ان کو مدینہ منورہ کے مختلف گھروں سے رسول اللہﷺ کے دور کے صاع منگوا کر دکھائے جو ایک دوسرے کے برابر تھے۔ اور یہ صاع اہل مدینہ نے وراثتاً اپنے آباؤ اجداد سے حاصل کیے تھے۔ اور یہی صاع صحیح ہے۔ جمہور اہل علم اسی کے قائل ہیں۔ امام ابو یوسف نے فرمایا تھا کہ اگر میرے استاد امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ یہ صاع دیکھ لیتے تو وہ بھی اس کے قائل ہو جاتے۔ گویا حنفیہ کا صاع شرعی صاع نہیں ہے، لہٰذا عشر اور صدقۃ الفطر میں مدنی صاع ہی معتبر ہوگا نہ کہ حنفیہ والا صاع جو بعد میں بنایا گیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2520
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2518
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2521
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت سائب بن یزید بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے دور میں صاع تمھارے آج کل کے حساب سے ایک مد اور ایک تہائی مد کے برابر تھا۔ اب اس (مد کی مقدار) میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ امام ابوعبدالرحمن (نسائی) ؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث زیاد بن ایوب نے بھی بیان کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
پیمانے اور وزن ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں، ایک جیسے نہیں رہتے، مد، صاع، درہم اور مثقال بھی چھوٹے بڑے ہوتے رہے ہیں۔ ظاہر ہے شریعت میں معتبر پیمانہ اور وزن تو وہی ہے جو رسول اللہﷺ کے دور میں تھا۔ آپ کے دور میں صاع چار مد کا تھا اور ایک مد وزن کے لحاظ سے ایک اور تہائی رطل 11/3 کا تھا۔ اسی طرح صاع پانچ رطل اور تہائی رطل کا تھا، یعنی 51/3 رطل۔ اور رطل 90 مثقال کا۔ اس لحاظ سے صاع کے وزن کی تفصیل حدیث 2515 میں گزر چکی ہے جو تقریباً ڈھائی کلو بنتا ہے۔ بعد میں مد اور صاع بڑا بنا دیا گیا۔ مد بجائے 11/3 رطل کے 23 رطل کا کر دیا گیا۔ اسی طرح صاع آٹھ رطل کا ہوگیا۔ احناف نے اس صاع کو اختیار کیا ہے، حالانکہ وہ صاع نبوی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ جب مدینہ منورہ گئے اور ان کا امام مالک رحمہ اللہ سے اس سلسلے میں مباحثہ ہوا تو انھوں نے اپنے مسلک سے رجوع کر لیا کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ نے ان کو مدینہ منورہ کے مختلف گھروں سے رسول اللہﷺ کے دور کے صاع منگوا کر دکھائے جو ایک دوسرے کے برابر تھے۔ اور یہ صاع اہل مدینہ نے وراثتاً اپنے آباؤ اجداد سے حاصل کیے تھے۔ اور یہی صاع صحیح ہے۔ جمہور اہل علم اسی کے قائل ہیں۔ امام ابو یوسف نے فرمایا تھا کہ اگر میرے استاد امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ یہ صاع دیکھ لیتے تو وہ بھی اس کے قائل ہو جاتے۔ گویا حنفیہ کا صاع شرعی صاع نہیں ہے، لہٰذا عشر اور صدقۃ الفطر میں مدنی صاع ہی معتبر ہوگا نہ کہ حنفیہ والا صاع جو بعد میں بنایا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سائب بن یزید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک صاع تمہارے آج کے مد سے ایک مد اور ایک تہائی مد اور کچھ زائد کا تھا۔ اور ابوعبدالرحمٰن فرماتے ہیں: اس حدیث کو مجھ سے زیاد بن ایوب نے بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
۱؎ : امام مالک، امام شافعی اور جمہور علماء کے نزدیک ایک صاع پانچ رطل اور تہائی رطل کا ہوتا ہے، اور امام ابوحنیفہ اور صاحبین کے نزدیک ایک صاع آٹھ رطل کا ہوتا ہے، لیکن جب امام ابویوسف کا امام مالک سے مناظرہ ہوا اور امام مالک نے انہیں اہل مدینہ کے وہ صاع دکھلائے جو موروثی طور سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے چلے آ رہے تھے تو انہوں نے جمہور کے قول کی طرف رجوع کر لیا۔ اور موجودہ وزن سے ایک صاع لگ بھگ ڈھائی کیلو کا ہوتا ہے مدینہ کے بازاروں میں جو صاع اس وقت بنتا ہے، یا مشائخ سے بالسند جو صاع متوارث ہے اس میں گیہوں ڈھائی کیلو ہی آتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Al-Ju'aid: "I heard As-Sa'ib bin Yazid say: 'During the time of Allah's messenger, the Sa' was equal to a Mudd and third of the Mudd you use today, and the Sa' of today has become large."' (Sahih) Abu 'Abdur-Rahman (An-Nasa'i) said: And Ziyad bin Ayyub narrated it to me.