تشریح:
(1) ”حضرت عائشہؓ نے عمرے کا احرام باندھ رکھا تھا“ ان الفاظ سے ظاہراً یہ مفہوم سمجھ میں آتا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے شروع ہی سے عمرے کا احرام باندھا تھا، مگر یہ درست نہیں۔ اصل بات یوں ہے کہ حضرت عائشہؓ اور اکثر لوگوں نے حج ہی کا احرام باندھا تھا۔ راستے میں آپ نے وحی کی بنا پر یہ حکم فرمایا کہ جن کے ساتھ قربانی کے جانور نہیں، وہ حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں تبدیل کر لیں اور عمرہ کر کے حلال ہو جائیں۔ حضرت عائشہؓ کے ساتھ بھی قربانی کا جانور نہیں تھا، لہٰذا انھوں نے اپنے حج کے احرام کو عمرے کے احرام میں بدل لیا۔ مکہ مکرمہ کے قریب پہنچے تو انھیں حیض شروع ہوگیا، لہٰذا وہ عمرہ نہ کر سکیں۔ یوم ترویہ (۸ ذوالحجہ) تک حیض ہی ختم نہ ہوا کہ عمرہ کر کے حج شروع کرتیں۔ اسی لیے انھیں پریشانی ہوئی جس کا تفصیلی ذکر اس حدیث میں ہے۔
(2) سرف: یہ ایک مقام ہے مکہ مکرمہ سے دس میل کے فاصلے پر۔
(3) ”کس قسم کی حلت“ چونکہ ابتداء حج ہی کا احرام باندھا تھا، نیز حج کے افعال شروع ہونے کو صرف تین دن باقی تھے، اس لیے ان کو حلال ہونے میں تردد تھا۔
(4) ”مکمل حلت“ یعنی تم جماع کر سکتے ہو۔
(5) ”چار راتیں“ آپ چار ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ پہنچے اور آٹھ ذوالحجہ کو حاجی لوگ منیٰ میں جاتے ہیں۔ درمیان میں یہی تین چار دن تھے۔
(6) ”حج کا احرام باندھ لے۔“ یعنی عمرے کے ساتھ حج کا احرام بھی باندھ لے تاکہ دونوں اٹھے ادا ہو جائیں جیسا کہ آخر میں ہے کہ تو دونوں سے فارغ ہوگئی ہے، یعنی دونوں ادا ہو گئے ہیں۔ گویا صرف نیت دونوں کی چاہیے، افعال صرف حج والے ہی ہوں گے۔ یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا مسلک ہے، جبکہ احناف کے نزدیک قران کی صورت میں عمرہ الگ کرنا ہوگا، حج الگ۔ صرف احرام مشترکہ ہوگا۔ وہ ترجمہ کرتے ہیں: ”تو عمرے کا احرام چھوڑ کر صرف حج کا احرام باندھ لے۔“ مگر آخری الفاظ: ”تو حج و عمرہ دونوں سے حلال ہوگئی ہے۔“ اس کے خلاف ہیں۔
(7) ”میں اپنے دل میں کچھ محسوس کر رہی ہوں۔“ یعنی میرا عمرہ حج سے الگ نہیں ہوا، لہٰذا مجھے اطمینان نہیں ہو رہا۔
(8) ”اے عبدالرحمن!“ یہ عبدالرحمن حضرت عائشہؓ کے سگے بھائی تھے۔
(9) ”تنعیم“ یہ ایک مقام ہے جو مکہ سے تقریباً چھ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ حد ہے حل اور حرم کے درمیان۔ مطلب نبیﷺ کا یہ تھا کہ انھیں وہاں لے جاؤ تاکہ یہ وہاں سے عمرے کا احرام باندھ کر آئیں اور الگ عمرہ کریں۔ رسول اللہﷺ نے صرف حضرت عائشہؓ کی دل جوئی کے لیے ان کو وہاں سے احرام باندھ کر عمرہ کرنے کی اجازت دی تھی۔ کیونکہ تنعیم یا مسجد عائشہ کوئی میقات نہیں جس سے احرام باندھا جائے۔ اس سے زیادہ سے زیادہ ایسی ہی حائضہ عورتوں کے لیے عمرے کی اجازت ثابت ہوتی ہے نہ کہ مطلقاً ہر شخص کے لیے وہاں سے احرام باندھ کر بار بار عمرہ کرنے کی، جیسا کہ بہت سے لوگ وہاں ایسا کرتے ہیں اور اسے ”چھوٹا عمرہ“ قرار دیتے ہیں۔ یہ رواج اور استدلال بے بنیاد ہے۔
(10) ”محصب میں گزاری“ یہ چودھویں رات تھی ذوالحجہ کی۔ منیٰ سے واپس آتے ہوئے آپ رات یہاں ٹھہرے تھے۔ احناف کے نزدیک یہ رات محصب میں ٹھہرنا حج کی سنت ہے جبکہ دیگر اہل علم کے نزدیک آپ کا یہاں ٹھہرنا اتفاقاً تھا۔ آپ نے مناسب نہ سمجھا کہ سارا سامان لے کر مکے جائیں اور پھر وہ سامان لے کر یہاں آئیں، لہٰذا پڑاؤ وہاں ڈال لیا۔ سامان کے بغیر مکہ مکرمہ آئے، طواف وداع کیا اور راتوں رات واپس چلے گئے۔ بعض صحابہ سے یہی بات صراحتاً منقول ہے۔ محصب کو حصبہ، حصبائ، ابطح، بطحاء اور خیف بنی کنانہ بھی کہتے ہیں۔