تشریح:
(1) بجو مردار خور نہیں۔ اگر یہ مردار خور ہوتا تو اسے حرام کہنے میں کوئی باک نہیں تھا۔ چونکہ یہ حلال جانور ہے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے ثابت ہوتا ہے، لہٰذا یہ شکار کی ذیل میں آتا ہے۔ محرم کے لیے شکار حرام ہے، لہٰذا وہ بجو کو نہیں مار سکتا۔ اگر مارے گا تو اسے اس کا فدیہ دینا پڑے گا۔ جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ ان شاء اللہ
(2) اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ محرم بجو کو قتل یا شکار نہیں کر سکتا، البتہ اس کی حلت کے بارے میں اختلاف ہے۔ امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ اسے کھانا حلال سمجھتے ہیں۔ دیگر اہل علم نے اسے حرام کہا ہے کہ یہ ”ذوناب“ (کچلی والا جانور) ہے۔ مگر شاید وہ اس بات سے غافل رہے کہ یہاں ذوناب کے لغوی معنیٰ مراد نہیں بلکہ ”ذوناب“ سے مراد شکاری جانور ہے جیسے کتا، شیر، چیتا وغیرہ اور بجو بالا تفاق شکاری نہیں۔ ”ناب“ تو وجہ حرمت نہیں۔ اس ناب میں کیا حرج جو شکار نہ کرے۔ (تفصیل ان شاء اللہ آگے بیان ہوگی)۔
(3) اس حدیث سے اشارتاً یہ بات سمجھ آتی ہے کہ محرم کوئی ایسا جانور شکار نہیں کر سکتا جسے کھایا جاتا یا جو کسی منفعت کی وجہ سے شکار کیا جاتا ہو۔ اگر وہ شکار کرے گا تو اسے جزا دینی پڑے گی۔