تشریح:
(1) حائضہ عورت کے ساتھ یہودیوں کا سلوک انتہائی توہین آمیز تھا جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے کہ وہ حیض کی حالت میں عورت کو اچھوت بنا دیتے تھے حتیٰ کہ اس کی رہائش بھی الگ ہو جاتی تھی، جب کہ عیسائی حیض اور غیر حیض میں کوئی فرق نہ کرتے تھے، وہ حیض کی حالت میں جماع تک کر لیتے تھے۔ اسلام نے، جو دین اعتدال ہے، میانہ روی اختیار کی کہ انھیں اچھوت بنایا نہ جماع کی اجازت دی اور یہی حق ہے۔
(2) قرآن مجید نے حائضہ سے جماع کے منع کرنے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ حیض کا خون نجس ہے اور نجاست میں لتھڑنا فطرت کے خلاف ہے، لہٰذا حیض ختم ہونے بلکہ ان کے غسل کرنے تک جماع حرام ہے۔ جب عورت بالکل پاک ہو جائے تو پھر جماع حلال ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی استدلال کیا گیا ہے کہ عورت کی ’’دبر‘‘ استعمال کرنا بھی حرام ہے کیونکہ وہ تو ہر وقت نجاست سے آلودہ رہتی ہے۔ علاوہ ازیں ایک دوسری حدیث میں صراحتاً بھی اس کی حرمت آئی ہے۔ دیکھیے: (جامع الترمذي: الطھارة، حدیث: ۱۳۵)
(3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی کا سبب یہ تھا کہ کسی قوم کی مخالفت کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ناجائز کام کرنے لگ جائیں۔ یہ تو ضد اور تعصب کا مظاہرہ ہوگا۔ یہود کی مخالفت بھی صرف ان کاموں میں ہے جو انھوں نے اپنی طرف سے دین میں شامل کیے ہیں اور جن میں وہ راہ راست سے ہٹے ہوئے ہیں۔ ہاں! بعض احکام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کا بھی حکم دیا ہے، جس سے مقصود ان سے امتیاز تھا۔
(4) چونکہ آپ کی ناراضی صرف ایک غلط رویے کے خلاف تھی نہ کہ ان صحابہ پر، لہٰذا آپ نے انھیں واپس بلا کر دودھ پلایا۔