تشریح:
(۱) امام نسائی یہاں یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ مذکورہ روایت میں عمران ابوالعوام قطان علم حدیث میں قوی نہیں ہیں۔ وہ اس روایت کو حضرت انس کی مسند بناتے ہیں جبکہ دیگر روای اس حدیث کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مسند بناتے ہیں جیسا کہ گزشتہ اجادیث: ۳۰۹۳ اور ۳۰۹۴ سے واضح ہے اور درست بھی یہی ہے۔ تاہم اس اختلاف سے حدیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، حدیث دوسری اسناد کے ساتھ بالکل صحیح ہے۔ واللہ أعلم۔
(2) ”مرتد ہوگئے“ مرتدین کی کئی قسمیں ہیں مگر یہاں اختلاف مانعین زکاۃ کے بارے میں ہے جن کا موقف تھا کہ زکاۃ صرف رسول اللہﷺ کے ساتھ خاص تھی، کوئی دوسرا وصول نہیں کرسکتا، حالانکہ آپ نے زکاۃ بطور امیر یا حاکم وصول فرماتی تھی ورنہ آپ کے لیے تو جائز ہی نہ تھی، لہٰذا اب جو نبیﷺ کا نائب بنے گا وہ بھی بطور حاکم وصول کرے گا ورنہ افراتفری پھیل جائے گی، زکاۃ کا فریضہ ترک ہوجائے گا، حالانکہ رسول اللہﷺ نے نماز اور زکاۃ دونوں کو مسلمان ہونے کے لیے شرط قراردیا ہے، نیز زکاۃ نہ دینے والا حکومت کا باغی ہے اور باغی سے لڑائی بالاتفاق جائز ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ یہ کلمہ گو ہیں۔ ان سے لڑائی جائز نہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دلائل سے ان کی سمجھ میں آگیا کہ مسلمان ہونے کے لیے صرف کلمہ ہی کافی نہیں کچھ دوسرے امور بھی ضروری ہیں جیسا کہ حدیث نبوی مذکور میں وضاحت ہے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 549 :
أخرجه أبو داود ( 2641 ) و الترمذي ( 2 / 100 ) عن سعيد بن يعقوب الطالقاني ،
و النسائي ( 2 / 161 ، 269 ) عن حبان ( و هو ابن موسى المروزي ) و أحمد
( 3 / 199 ) عن علي بن إسحاق ( و هو السلمي المروزي ) كلهم عن عبد الله بن
المبارك أخبرنا حميد الطويل عن أنس بن مالك قال : قال رسول الله صلى الله
عليه وسلم : فذكره .
و قال الترمذي : " حديث حسن صحيح " .
و تابعه ابن وهب : أخبرني يحيى بن أيوب عن حميد الطويل به .
أخرجه أبو داود ( 2642 ) و الطحاوي في " شرح معاني الآثار " ( 2 / 123 ) .
قلت : و هذا إسناد صحيح على شرط الشيخين ، و كذلك طريق حبان المروزي .
و رواه محمد بن عبد الله الأنصاري قال : أنبأنا حميد قال : سأل ميمون بن سياه
أنس بن مالك قال : يا أبا حمزة ما يحرم دم المسلم و ماله ، فقال :
فذكره موقوفا .
و إسناده صحيح أيضا ، و لا منافاة بينه و بين المرفوع ، فكل صحيح . على أن
المرفوع أصح ، و رواته أكثر .
و فيه دليل على بطلان الحديث الشائع اليوم على ألسنة الخطباء و الكتاب :
أن النبي صلى الله عليه وسلم قال في أهل الذمة :
" لهم ما لنا ، و عليهم ما علينا " .
و هذا مما لا أصل له عنه صلى الله عليه و سلم ، بل هذا الحديث الصحيح يبطله ،
لأنه صريح في أنه صلى الله عليه وسلم إنما قال ذلك فيمن أسلم من المشركين و أهل
الكتاب ، و عمدة أولئك الخطباء على بعض الفقهاء الذين لا علم عندهم بالحديث
الشريف ، كما بينته في " الأحاديث الضعيفة و الموضوعة " ( رقم 1103 ) فراجعه
فإنه من المهمات .
و للحديث شاهد بلفظ آخر ، و هو :
" من أسلم من أهل الكتاب فله أجره مرتين ، و له مثل الذي لنا ، و عليه مثل الذي
علينا ، و من أسلم من المشركين فله أجره ، و له مثل الذي لنا ، و عليه مثل الذي
علينا " .