تشریح:
حضرت عائشہؓ کا خیال یہ تھا کہ رضاعت کے ساتھ بچے کا عورت سے تو رشتہ قائم ہوجاتا ہے کیونکہ اس نے ا س کا دودھ پیا ہے لیکن عورت کے خاوند سے کوئی رشتہ قائم نہیں ہوتا کیونکہ بچے کا تو اس سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ حالانکہ عورت کو دودھ مرد کے جماع اور حمل کے نتیجے میں آتا ہے۔ گویا عورت کے دودھ میں خاوند کا بھی دخل ہے‘ لہـٰذا دودھ پینے والے بچے کا رشتہ عورت اور اس کے خاوند دونوں سے قائم ہوگا۔ عورت بچے کی ماں خاوند بچے کا باپ کہلائے گا۔ اسی طرح عورت اور اس کے خاوند کے قریبی رشتے داروں سے بھی اس بچے کا رشتہ قائم ہوجائے گا۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے‘ حدیث: ۳۳۰۳)