تشریح:
(1) ”شغار یہ ہے“ شغار کی یہ تفسیر اگرچہ خود رسول اللہﷺ یا کسی صحابی سے منقول نہیں بلکہ یہ حضرت ابن عمر کے شاگرد حضرت نافع سے منقول ہے‘ تاہم اس تفسیر سے نکاح شغار کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ موجودہ وٹہ سٹہ شغار کی ذیل میں نہیں آتا کیونکہ ان میں الگ الگ مہر مقرر ہوتا ہے‘ تاہم جہالت کی وجہ سے وٹہ سٹہ کی شادی کے نتائج بالعموم بہت غلط نکلتے ہیں‘ اس لیے اس سے اجتناب ہی بہتر ہے۔
(2) سنن ابوداود میں ایک واقعہ منقول ہے کہ دوشخصوں نے ایک دوسرے کی بیٹی سے نکاح کیا‘ اس کے بعد اس میں الفاظ ہیں: [وكانا جعَلا صداقًا] ”اور ان دونوں نے حق مہر بھی مقرر کیاتھا۔“ (سنن ابي داود: النكاح‘ حدیث: ۲۰۷۵) اس کے باوجود اس راویت میں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت مروان (اپنے گورنر) کو لکھا ہے کہ وہ ان دونوں کے درمیان تفریق کرا دیں کیونکہ یہ وہی شعار ہے جس سے رسول اللہﷺ نے منع فرمایا ہے۔ اس روایت کی بنیاد پر بعض علماء نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ حق مہر ہو‘ تب بھی اس طرح کا مشروط نکاح (جس میں ایک دوسرے کی بیٹی یا نکاح کی شرط ہو) باطل ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ سنن ابو داود کی یہ روایت صحیح ابن حبان (الإحسان بترتیب صحیح ابن حبان: ۶/ ۱۸۰‘ وموارد الظمآن: ۴/۱۹۶) میں [وَقَدْ کَانَا جَعَلاَہُ صَدَاقاً] کے الفاظ کے ساتھ آئی ہے‘ یعنی اس میں جعل کا مفعول اول بھی مذکور ہے۔ اس عبارت کی رُو سے معنیٰ بنتے ہیں کہ ان دونوں نے اس مشروط نکاح ہی کو حق مہر بنا دیا تھا۔ اس ضمیر کے ساتھ اس روایت کے معنیٰ بالکل صحیح ہوجاتے ہیں اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے تفریق کرانے کی معقول وجہ بھی سامنے آجاتی ہے کہ یہ نکاح ممنوعہ شغار کا مصداق تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا حکم تفریق بھی اس امر کا قرینہ ہے کہ یہاں ضمیر مفعول اول محذوف ہے اور روایت کے الفاظ [جَعَلاَہُ ] ہی ہیں‘ نہ کہ [جَعَلا ] (ضمیرمفعول کے بغیر) کیونکہ حق مہر کی ادائیگی کے باوجود حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا اس نکاح کو باطل قراردینا ناقابل فہم ہے۔ واللہ أعلم۔