تشریح:
(1) جن باتوں کا تعلق ہی دل سے ہے‘ مثلاً اعتقادات‘ ایمان اور کفر وغیرہ‘ ان پر مؤاخذہ یا ثواب ہوگا‘ خواہ وہ دل ہی میں رہیں۔ یہاں صرف وسوسے اور خیالات مراد ہیں جو وقتی طور پر دل میں آتے ہیں اور نکل جاتے ہیں‘ نہ کہ ایمان وکفر ونفاق وغیرہ جو دل میں جاگزیں ہوتے ہیں۔
(2) یہ امت محمدیہ کا خاصہ ہے۔ باقی امتوں پر اس کا بھی محاسبہ ہوتا تھا۔ اس سے امت محمدیہ کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ عَلٰی صَاحِبِھَا الصَّلاَةُ وَالتَّسْلِیْمُ۔