تشریح:
(1) مصعب سے مراد مصعب بن زبیر ہیں جو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے اور ان کے دور خلافت میں ا ن کی طرف سے عراق کے گورنر رہے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے یزید کے دور میں مکہ مکرمہ میں اپنی خلافت کا اعلان فرما دیا تھا۔ ۷۳ ہجری میں عبدالملک کے گورنر حجاج نے انہیں شہید کرکے ان کی خلافت ختم کردی۔رَضِيَ اللّٰہُ عَنْه وَأَرْضَاہُ۔
(2) احناف کا موقف ہے کہ لعان سے تفریق واقع نہیں ہوتی‘ قاضی تفریق کرے تو تب جدائی واقع ہوگی‘ پھر اس جدائی میں بھی ان کا اختلاف ہے۔ ابو حنیفہ اور امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک یہ طلاق بائنہ ہوگی اور خاوند بعد ازاں اپنے آپ کو جھٹلا دے‘ یعنی الزام واپس لے لے تو دونوں میں دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے جبکہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے نزدیک اس تفریق سے وہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے پر حرام ہوجائیں گے۔ صحیح موقف جمہور (مالک، شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ ) کا ہے کہ محض لعان ہی سے جدائی واقع ہوجائے گی‘ قاضی کی تفریق کی ضرورت ہے نہ طلاق ہی کی۔ اس کے بعد دونوں ایک دوسرے پر ابدی طور پر حرام ہیں‘ آپس میں ان کا کبھی نکاح نہیں ہوسکتا‘ چاہے خاوند اپنے موقف سے پھر بھی جائے کیونکہ قسم جب واقع ہوجائے اور اس کے نتیجے میں احکام لاگو ہوجائیں ور فیصلہ ہوجائے تو وہ قسم واپس نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح لعان بھی ختم نہیں ہوتا‘ لیکن اس صورت میں خاوند پر حد قذف ضرور لگے گی کیونکہ اس نے صرف تہمت ہی نہیں لگائی بلکہ لعان کرکے اس سرعام ذلیل بھی کیا‘ لہٰذا اور کچھ نہیں تو کم ازکم حد قذف ضرور لگے گی۔ واللہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ، شرح سنن النسائي: ۲۹/۱۴۸، ۱۴۹‘ و۱۵۲، ۱۵۳‘ وفتح الباري: ۹/۴۵۹،۴۶۰‘ والمغني:۱۱/۱۵۰‘ طبعة دار عالم الکتب)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه) .
إسناده: حدثنا أحمد بن محمد بن حنبل: ثنا إسماعيل: ثنا أيوب عن
سعيد بن جبير.
قلت: وهذا إسناد صحيح أيضاً على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما
يأتي.
والحديث في "المسند" (2/4) ... إسناداً ومتناً.
وأخرجه البخاري (9/376) ، والنسائي (6/102) من طريقين آخرين عن
إسماعيل ابن عُلَيَّةَ به.
ومسلم (4/207) ، والبيهقي (7/401) من طرق أخرى عن أيوب
السَّخْتِيَاني... به.