تشریح:
(1) رسول اللہﷺ نے ساری زندگی جائیداد نہیں بنائی‘ صرف کھایا پیا اور ضرورت واستعمال کی چیزیں رکھیں جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے واضح ہورہا ہے۔ ضرورت واستعمال کی چیزوں کے بارے میں بھی آپ نے صراحت فرما دی تھی کہ میری وفات کے بعد وہ چیزیں بیت المال میں چلی جائیں گی اور ان کا مفاد بھی سب مسلمانوں کو ہوگا۔ تمام انبیاء علیہم السلام کا یہی طرز عمل رہا ہے تاکہ کوئی نابکار یہ نہ کہہ سکے کہ انبیاء نے نبوت کا کھڑاک مال اکٹھا کرنے کے رچایا تھا۔ نعوذ باللہ من ذالك۔ اسی اصول کی بنا پر رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد آپ کی متروکہ زمین تقسیم نہیں کی گئی بلکہ بیت المال میں رہی۔ فداہ نفسي وروحي وأبي وأميﷺ۔
(2) اگر وقف کا کوئی ناظم مقرر نہ کیا گیا ہو تو وہ بیت المال میں داخل ہوگا اور حاکم وقت اس کا ناظم ہوگا۔