تشریح:
(1) ”اپنی زمین“ دراصل یہ بیرحاء نامی باغ تھا جو مسجد نبوی کے سامنے شمال کی جانب تھا۔ بہت زرخیز اور گھنا تھا۔
(2) ”تقسیم کردو“ معلوم ہوا کہ یہ مشہور معنیٰ میں وقف نہیں تھا ورنہ کسی کو مالک نہ بناتے‘ البتہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ابتدئی الفاظ: جَعَلْتُ أَرْضيَ لِلّٰہِ وقف پر دلالت کرتے ہیں۔ شاید ان الفاظ کی بنا پر ہی اس راویت کو ”وقف“ کے باب میں لایا گیا ہے۔ ممکن ہے رسول اللہ ﷺ نے وقف کے بجائے تقسیم کو مناسب خیال فرمایا ہو‘ لہٰذا یہ حکم فرمایا۔
(3) اقرباء میں سے سب سے زیادہ قرابت دار کو دینا واجب نہیں بلکہ جسے مناسب ہو اسے دے دیا جائے۔
(4) آدمی اپنے باغ کے گرد چار دیواری بنا سکتا ہے۔ نیک اور اہل علم لوگوں کا باغ میں تفریح کرنے اور اس کا پانی اور پھل استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ باغ مالک کے لیے نیکیاں شمار ہوں گی۔
(5) آدمی مرض الموت میں نہ ہو تو ثلث مال سے زائد کی وصیت کرسکتا ہے نبی اکرم ﷺ نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے یہ نہیں پوچھا کہ کتنے مال کا صدقہ کیا ہے۔