تشریح:
(1) ”اپنے گناہ سمیت لوٹے گا“ یعنی قاتل اپنے کیے کی سزا پائے گا۔ اس کے دوسرے معنیٰ یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ پھر قاتل پر مقتول کے گناہ لاد دئیے جائیں گے جو کہ قتل کا عوض ہو گا۔ نتیجے کے لحاظ سے دونوں معانی میں کوئی فرق نہیں۔ و اللہ أعلم۔
(2) اس حدیث میں دو قسم کے قاتلوں کا ذکر ہے: ایک وہ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کی خاطر کسی کافر کو قتل کرتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر یہ قتل جائز ہے بلکہ اس سے ثواب حاصل ہو گا، مثلاً: جہاد کے دوران میں یا حدود کے نفاذ کی خاطر۔ دوسرا قتل جو حکومت، سرداری، انا اور عزت کی خاطر کیا جاتا ہے (اپنی ہو یا کسی کی)۔ یہ قتل جرم ہے۔ اس قاتل کو اپنے کیے کی سزا بھگتنی ہو گی۔