تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ کا جو حصہ تھا، آپ کے بعد اس کے حق دار خلیفۂ بلافصل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ اور صدیق اکبر کے بعد خلیفۂ ثانی امیر المومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے لیکن ان دونوں محترم بزرگوں نے ہرگز وہ حصہ نہ لیا۔ یہ حدیث ان کی حقانیت اور بے نیازی و غناء کی بہت بڑی دلیل ہے۔
(2) جیسا کہ پہلے بھی پیچھے گزر چکا ہے کہ خمس دراصل بیت المال کا ہے۔ اس میں کسی کا کوئی حصہ مقرر نہیں۔ جہاں ضرورت ہو خرچ کیا جائے، مثلاً: حاکم وقت اور دیگر ملازمین کی تنخواہ، ضرورت مند اور محتاج حضرات کے وظائف، جہاد کی تیاری اور مسلمانوں کی بہبود کے دوسرے کام۔ رسول اللہ ﷺ نے خمس میں جو تصرف فرمایا، وہ اللہ کے حکم کے مطابق فرمایا اور یہی رسول کی ذمہ داری ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے فوائد، حدیث: ۴۱۳۸)