تشریح:
غنیمت اور خمس کے بارے میں تفصیلی بحث سابقہ حدیث میں ہوچکی ہے۔ ملا حظہ فرمائیں۔ باقی رہا امام صاحب کا فرمانا کہ خمس میں فلاں فلاں کے حصے مقرر ہیں اور برابر ہیں۔ یہ فرمانا درست نہیں بلکہ خمس کا اور خمس کے مستحقین کا تعین ہے مقدار کا تعین نہیں۔ جس مصرف میں ضرورت ہو‘ خرچ کرے اور جس قدر ضرورت ہو‘ خرچ کرے۔ یہ نہیں کہ فقراء مساکین اور قرابت داروں کو عین برابر حصے دے بلکہ ان کو ان کی حاجت کے مطابق ملے گا‘ یعنی اﷲ تعالیٰ نے خمس، یعنی بیت المال کے مصارف بیان فرمائے ہیں نہ کہ ان کے حسے بیان کیے ہیں کہ سب کے برابر ہیں یا کم وبیش۔ یہ کہیں منقول نہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے اپنے رشتے داروں یا دوسرے مستحقین میں عین برابر مال تقسیم کیا ہو بلکہ غزوہ حنین کے خمس سے آپ نے بعض لوگوں کو سوسواونٹ دیے تھے اور بعض کو کچھ بھی نہیں دیا تھا‘ نیز یہ بھی تو ممکن ہے کہ کسی علاقے میں اہل بیت ہی نہ ہوں۔ تو پھر ان کا حصہ کن کو دیا جائے گا؟اصل یہی ہے کہ مستحقین متعین ہیں لیکن حصہ متعین نہیں جوبھی مستحق پایا جائے گا اس کا حاجت کے مطابق اسے دیا جائے گا۔