تشریح:
(1) حضرت ابن عباس ؓ انتہائی ذہین شخص تھے۔ انھوں نے یہ لطیف نکتہ پیدا کیا کہ اگر گھر بار چھوڑ کر جانے کی وجہ سے کوئی شخص مہاجربن سکتا ہے تو وہ انصار جو بیعت کرنے کے لیے مکہ مکرمہ پہنچے تھے‘ وہ بھی مہاجر تھے کیونکہ وہ مدینہ چھوڑ کرآپ کے پاس گئے تھے اور آپ کے حکم سے دوبار مدینہ آئے تھے۔ اسی طرح مہاجرین کو بھی انصار کہا جا سکتا ہے کیونکہ انھوں نے ہر موقع پر آپ کا ساتھ دیا اور آپ کی مدد کی۔ اور مدد کرنے والوں کو لغت کے لحاظ سے انصار کہا جا سکتا ہے۔ یہ صرف ایک نکتہ ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مہاجرین وہی تھے جنھوں نے ہمیشہ کے لیے اپنے گھر بار چھوڑ دیے۔ حتیٰ کہ مکہ فتح ہونے پر باوجود دارالاسلام بن جانے کے وہاں ٹہرنا پسند نہ کیا۔ اور انصار وہی تھے جنھوں نے اپنا شہر‘ اپنے گھر اپنی زمینیں‘اپنی جائیدادیں حتیٰ کہ اپنی جانیں رسول اﷲ ﷺ کو پیش کردیں۔ رضي الله عنهم و أرضاهم.
(2) ”عقبہ کی رات“ یہ رات دارصل دو راتیں تھیں۔ ایک ۲۱ نبوت میں جسے لیلہ عقبہ اولیٰ کہا جاتا ہے اور دوسری۱۳ نبوت میں جسے لیلہ عقبہ ثانیہ کہا جاتا ہے۔عقبہ منیٰ سے مکہ کی طرف آخری کمرے کا نام ہے۔ اس جمرے کے پاس رسول اﷲ ﷺ نے مدینہ والوں کو اسلام کی دعوت دی تھی، یہ ۱۱ نبوت کی بات ہے۔ وہ چھ آدمی تھے، انھوں نے آئندہ سال آپ نے ملنے کا وعدہ کیا اور مدینہ جا کر آپ کی دعوت مدینہ والوں کے سامنے پیش کی۔ ۱۲ نبوت میں حج کے بعد بارہ آدمی اس جمرے کے پاس آپ کو ملے‘ اسلام قبول کیا اور آپ کی بیعت کی۔ آپ نے ان کے ساتھ مبلغ بھی بھیج دیا۔ اگلے سال۱۳ نبوت میں حج کے بعد اسی جمرے کے پاس ستر (۷۰) سے زیادہ انصار نے آپ کی بیعت کی اور آپ سے مدینہ چلنے کی درخواست کی۔ آپ نے اسے قبول فرمایا اور مناسب وقت پر مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔