قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن النسائي: كِتَابُ الْبَيْعَةِ (بَابُ ذِكْرِ مَا عَلَى مَنْ بَايَعَ الْإِمَامَ وَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ)

حکم : صحیح 

4191.  أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ رَبِّ الْكَعْبَةِ قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، وَالنَّاسُ عَلَيْهِ مُجْتَمِعُونَ، قَالَ: فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: بَيْنَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ إِذْ نَزَلْنَا مَنْزِلًا، فَمِنَّا مَنْ يَضْرِبُ خِبَاءَهُ، وَمِنَّا مَنْ يَنْتَضِلُ، وَمِنَّا مَنْ هُوَ فِي جَشْرَتِهِ، إِذْ نَادَى مُنَادِي النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ»، فَاجْتَمَعْنَا، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَنَا، فَقَالَ: إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيٌّ قَبْلِي إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَى مَا يَعْلَمُهُ خَيْرًا لَهُمْ، وَيُنْذِرَهُمْ مَا يَعْلَمُهُ شَرًّا لَهُمْ، وَإِنَّ أُمَّتَكُمْ هَذِهِ جُعِلَتْ عَافِيَتُهَا فِي أَوَّلِهَا، وَإِنَّ آخِرَهَا سَيُصِيبُهُمْ بَلَاءٌ، وَأُمُورٌ يُنْكِرُونَهَا تَجِيءُ فِتَنٌ فَيُدَقِّقُ بَعْضُهَا لِبَعْضٍ، فَتَجِيءُ الْفِتْنَةُ، فَيَقُولُ الْمُؤْمِنُ: هَذِهِ مُهْلِكَتِي، ثُمَّ تَنْكَشِفُ، ثُمَّ تَجِيءُ فَيَقُولُ: هَذِهِ مُهْلِكَتِي، ثُمَّ تَنْكَشِفُ فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُزَحْزَحَ عَنِ النَّارِ، وَيُدْخَلَ الْجَنَّةَ، فَلْتُدْرِكْهُ مَوْتَتُهُ وَهُوَ مُؤْمِنٌ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَلْيَأْتِ إِلَى النَّاسِ مَا يُحِبُّ أَنْ يُؤْتَى إِلَيْهِ، وَمَنْ بَايَعَ إِمَامًا، فَأَعْطَاهُ صَفْقَةَ يَدِهِ وَثَمَرَةَ قَلْبِهِ، فَلْيُطِعْهُ مَا اسْتَطَاعَ، فَإِنْ جَاءَ أَحَدٌ يُنَازِعُهُ فَاضْرِبُوا رَقَبَةَ الْآخَرِ فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَقُلْتُ: سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ هَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ وَذَكَرَ الْحَدِيثَ متصل

مترجم:

4191.

حضرت عبدالرحمن بن عبد رب الکعبہ سے روایت ہے کہ میں حضرت عبد اﷲ بن عمرو ؓ کے پاس پہنچا۔ وہ کعبہ کے سائے میں بیٹھے تھے اور لوگ ان کے ارد گرد جمع تھے۔ میں نے انھیں فرماتے سنا کہ ایک دفعہ ہم رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے۔ ہم ایک منزل میں اترے۔ ہم میں سے کوئی شخص ابھی خیمہ لگا رہا تھا، کوئی (بطور مشق) تیر اندازی کررہا تھا اور کوئی اپنے جانوروں کو چرانے کے لیے نکال رہا تھا کہ اتنے میں نبی ﷺ کے منادی نے اعلان کیا: تماز کے لیے اکٹھے ہوجاؤ، چنانچہ ہم سب اکٹھے ہوگئے۔ نبی اکرم ﷺ کھڑے ہوئے اور ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا۔ آپ نے (خطبہ کے دوران میں) فرمایا: ”جو بھی نبی مجھ سے پہلے گزرے ہیں‘ ان پر ضروری تھا کہ اپنی امت کی ان باتوں کی طرف رہنمائی فرمائیں جنھیں وہ ان کے لیے بہتر سمجھتے تھے۔ اور انھیں ان چیزوں سے ڈرائیں جنھیں وہ ان کے لیے برا سمجھتے تھے۔ اور تمھاری اس امت کی خیرو بھلائی اس کے ابتدائی لوگوں میں رکھ دی گئی ہے۔ بعد میں آنے والوں پر بڑی آزمائشیں آئیں گی اور ایسے حالات طاری ہوں گے جنھیں وہ ناپسند کریں گے۔ بے شمار فتنے آئیں گے جو ایک دوسرے کے مقابلے می ہلکے معلوم ہوں گے۔ (ایک سے بڑھ کرایک ہو گا)۔ ایک فتنہ آئے گا، مومن سمجھے گا کہ یہ مجھے ہلاک کرڈالے گا، پھر وہ فتنہ ٹل جائے گا اور اس کی جگہ اور بڑا فتنہ آئے گا۔ مومن کہے گا: یہ ہلاک کن ہے (اس سے تو میں بچ ہی نہیں سکتا) پھر وہ بھی ٹل جائے گا، چنانچہ تم میں سے جو شخص چاہتا ہے کہ اسے آگ سے بچا کر جنت میں داخل کر دیا جائے تو اس کو موت اس حال میں آنی چاہیے کہ وہ اﷲ تعالیٰ اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہو اور لوگوں کے ساتھ وہی سلوک کرے جو وہ خود پسند کرتا ہے کہ میرے ساتھ کیا جائے۔ جو شخص کسی امام (امیر) کی بیعت کرے، اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے اور اس سے دلی طور پر (خلوص کا) عہد کرے تو جہاں تک ہو سکے، وہ اس کی اطاعت کرے، پھر اگر کوئی دوسرا شخص (مسلمہ) امیر سے حکومت چھیننے کی کوشش کرے تو اس کی گردن مار دو۔ “ (راوی نے کہا:) میں نے حضرت عبداﷲ بن عمرو ؓ سے قریب ہوکر پوچھا: آپ نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ سب باتیں فرماتے سنا ہے؟ انھوں نے فرمایا: ہاں! (یقینا)