تشریح:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت یوں بنتی ہے کہ جو شخص کسی امیر اور امام برحق کی بیعت کرلیتا ہے اور اسے اپنا تمام تر خلوص و محبت پیش کر دیتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ شخص حسب استطاعت وفا کے تقاضے پورے کرے اور اس پر جو اطاعت امیر لازم ہے اسے پورا کرے۔ اگر کوئی دوسرا شخص آکر پہلے امیر کی خلافت چھیننا چاہے تو وہ پہلے امیر کے ساتھ مل کر دوسرے سے لڑائی کرے۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے انبیاء کے ذمے ان فرائض کی وضاحت بھی ہوتی ہے جو اﷲ تعالیٰ نے ان پر عائد کیے تھے یعنی اخلاص کے ساتھ انھیں خیر وشر کے متعلق خبردار کرنا، انھیں ان کی دنیوی واخروی بھلائیوں کی رہنمائی کرنا اور انھیں ان کے دینی ودنیوی شر اور نقصان سے ڈرانا اور اس پر متنبہ کرنا۔
(3) موت تک ایمان باﷲ اور ایمان بالآخرت پر پکا رہنا، نیز لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا، آگ سے نجات اور جنت میں داخلے کا سبب ہے۔
(4) امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ ہر انسان پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ ویسا سلوک اور برتاؤ کرے جیسا وہ اپنے لیے لوگوں سے چاہتا ہے۔ حدیث اس بات پر صریح نص ہے۔ نبی ﷺ کے ان کلمات کو آپ کے جوامع الکلم میں سے شمار کیا گیا ہے۔ یہ شریعت مطہرہ کا اہم قاعدہ ہے۔ ہر مسلمان مرد اور عورت کو اس کا خاص اہتمام کرنا چاہیے۔
(5) ”ابتدائی لوگوں میں“ معلوم ہوا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم افضل امت تھے۔ ان کا دین محفوظ تھا۔ دنیوی فتنوں کا بہت کم شکار ہوئے۔
(6) ”ہلکے معلوم ہوں گے“ یعنی بعد والا فتنہ پہلے فتنے سے بڑا ہوگا، لہٰذا پہلا فتنہ دوسرے کے مقابلے میں ہلکا محسوس ہوگا، حالانکہ وہ حقیقتاََ بہت بڑا ہوگا جیسا کہ حدیث ہی میں تفصیل مذکور ہے۔
(7) ”گردن ماردو“ اسلام میں بغاوت بہت بڑا جرم ہے۔ لوگ ایک امیر پر متفق اور مطمئن ہوں تو اس کے خلاف افرا تفری پیدا کرنے والا امن وامان کو درہم برہم کرنے والا بڑا مجرم ہے۔ اس کی سزا قتل ہے۔ گویا بغاوت ارتداد کے جرم کے برابر ہے۔ گزشتہ صفحات میں اس کی تفصیل بیان ہوچکی ہے۔