تشریح:
(1) کھانے پینے والی کسی چیز یا برتن میں مکھی گر جائے تو اس کا حکم یہ ہے کہ وہ چیز اور برتن پلید نہیں ہوتا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے مکھی کی بابت حکم فرمایا ہے کہ اس کو ڈبو دیا جائے اور پھر ڈبو کو نکال پھینکا جائے۔
(2) اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ مکھی زندہ ہو یا مردہ، وہ پاک ہوتی ہے۔
(3) ”ڈبو کر“ ڈبونے سے اس کے مرنے کا امکان ہے۔ معلوم ہوا مکھی وغیرہ (جن میں خون کثیر مقدار میں نہیں ہوتا) کے مرنے سے مشروب پلید نہیں ہو گا۔
(4) رسول صادق و مصدوق ﷺ سے دیگر روایات میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ مکھی کے ایک پر میں بیماری اور دوسرے میں شفا ہے۔ اور مکھی کسی چیز میں گرتے وقت وہ پر پہلے لگاتی ہے جس میں بیماری ہے، لہٰذا تم دوسرا پر بھی ڈبو دو تاکہ بیماری کا علاج ساتھ ہو جائے۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: ۳۳۲۰، و سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: ۳۸۴۴)
(5) بعض حضرات نے اس حدیث پر اعتراض کیا ہے کہ مکھی تو گندی چیزوں پر بیٹھتی ہے۔ پھر کھانے پینے والی چیزوں کو خراب کرتی ہے، لہٰذا مکھی کو ڈبونے سے تو مزید خرابی پیدا ہو گی۔ ان معترض حضرات کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود مکھی سے نہیں بچ سکتے اور نہ اس کی خرابی سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے کمال مہربانی فرماتے ہوئے اس کا علاج تجویز فرمایا ہے تو کیا برا کیا ہے؟ باقی رہی یہ چیز کہ اس کے ایک پر میں بیماری اور دوسرے میں شفا ہے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ شہد کی مکھی میں شہد بھی ہے اور زہر بھی۔ جانوروں میں دودھ بھی ہے اور گوبر بھی، نیز یہ عملی تجربہ ہے کہ بھڑ وغیرہ کاٹ لے تو اس کو وہیں جسم پر مسل دینے سے زہر ختم ہو جاتا ہے۔ کیوں نہ ایک سچے نبی کی بات کو صدق دل سے مان لیا جائے؟ فداہ نفسي و روحي۔ﷺ