تشریح:
(1) اس حدیث میں نماز سے مراد مغرب اور فجر کے علاوہ ہیں کیونکہ یہ نمازیں سفروحضر میں تبدیل نہیں ہوتیں۔ مغرب ہرحال میں تین رکعت اور فجر ہر حال میں دورکعت ہے۔
(2)اس حدیث کا ظاہر مراد نہیں کیونکہ قرآن مجید کی آیت ﴿فلیس علیکم جناح ان تقصرو من الصلوۃ﴾ (النساء۴:۱۰۱) سے معلوم ہوتا ہے کہ قصر والی نمازیں چاررکعت تھیں۔ مسافر کو رخصت دی گئی کہ دو پڑھ لے، الایہ کہ حدیث کا مطلب یہ ہو کہ معراج سے پہلے نماز دورکعت تھی۔ جب معراج کے موقع پر پانچ نمازیں فرض ہوئیں تو بعض کو چار رکعت کردیا گیا، پھر سفر کی نماز دو رکعت کردی گئی تو گویا وہ معراج سے پہلے والی حالت میں رہ گئی اور گھر کی نماز مکمل رہنے دی گئی۔
(3)اس حدیث سے احناف نے استدلال کیا ہے کہ سفر کی نماز دورکعت ہی ہے۔ چار پڑھ ہی نہیں سکتا جس طرح ظہر کی چھ نہیں پڑھ سکتا، مگر یہ مطلب مذکورہ قرآنی آیت کے علاوہ خود راویٔ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مسلک کے بھی خلاف ہے کیونکہ وہ سفر میں چار بھی پڑھتی تھیں اور احناف کے نزدیک راوی کی رائے کو ترجیح دی جاتی ہے نہ کہ روایت کے ظاہر الفاظ کو۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه وكذا أبو عوانة
في "صحاحهم ") .
إسناده: حدثنا القعنبي عن مالك عن صالح بن كَيْسَانَ عن عروة بن الزبير
عن عائشة.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي.
والحديث في "الموطأ" (1/162- 163) .
وعنه: البخاري (1/67) ، ومسلم (2/142) ، وأبو عوانة (2/26) ، والنسائي
(1/79) كلهم عن مالك... به.
وكذلك أخرجه الطحاوي (1/245) .
وتابعه ربيعة- وهو ابن أبي عبد الرحمن- عن صالح بن كيسان... به؛ وزاد:
قال:
فأخبرتها عمر بن عبد العزيز. فقال: إن عروة قد أخبرني بأن عائشة كانت
تصلي أربع ركعات في السفر؟! قال: فوجدت عروة يوماً عنده، فقلت: كيف
أخبرتني عن عائشة... فحدث بما حدث (الأصل: حدثني) به عمر؟! فقال
عمر: أليس حدثتني أنها كانت تصلي أربعاً في السفر؟ قال: بلى.
وتابعه الزهري عن عروة... به؛ وزاد: قال الزهري:
فقلت لعروة: ما بال عائشة تتم؟ قال: تأولت ما تأول عثمان.
أخرجه البخاري (2/39) ، ومسلم (2/143) ، والنسائي - وليس عنده قول
الزهري-، والدارمي (1/355) ، والبيهقي (2/143) .
وله طرق أخرى عن عائشة: عند أحمد (6/234 و 241 و 265 و 272) ،
والبيهقي (3/145) .