تشریح:
(1) ہر نماز چار رکعت نہیں، مغرب چونکہ وترالنھار ہے، لہٰذا وہ تین رکعت ہے اور تین ہی رہے گی۔ اور فجر میں قراءت لمبی ہوتی ہے حتیٰ کہ دورکعت چار رکعت سے بھی بڑھ جاتی ہیں، لہٰذا یہ نماز بھی حضروسفر میں دورکعت ہی رکھی گئی۔ باقی تین نمازیں گھر میں چار رکعت اور سفر میں دورکعت ہیں، البتہ محقق قول کے مطابق اگر کوئی مسافر چار رکعت پڑھنا چاہے تو کوئی حرج نہیں جیسا کہ حضرت عائشہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما سے صحیح ثابت ہے۔ (صحیح البخاري، التقصیر، حدیث:۱۰۸۳) ہاں! دو رکعت پڑھنا بہتر ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامعمول یہی رہا ہے۔ اگر کوئی چار پڑھے گا تو اس کا بھی جواز ہے۔ واللہ اعلم۔
(2)”خوف کی نماز ایک رکعت۔“ نماز خوف کی مخصوص مختلف صورتوں میں سے یہ بھی ایک صورت ہے، یعنی شدید خوف میں ایک رکعت بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ لیکن جمہور علماء اس حدیث کی تاویل کرتے ہیں کہ ایک رکعت سے مراد امام کے ساتھ ایک رکعت ہے اور دوسری رکعت اپنے طور پر پڑھے۔ صرف ایک رکعت نماز درست نہیں۔ لیکن جمہور علماء کا یہ موقف دلائل کی روشنی میں محل نظر معلوم ہوتا ہے، کیونکہ ایک رکعت نماز بھی متعدد صحیح احادیث سے ثابت ہے، لہٰذا موقع محل کی مناسبت سے ایک رکعت بھی بلاتامل پڑھی جاسکتی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے حدیث نمبر۱۴۴۲ اور ۱۵۳۰ کے فوائدومسائل دیکھیے۔