قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن النسائي: كِتَابُ الْبُيُوعِ (بَابُ الْبَيْعِ يَكُونُ فِيهِ الشَّرْطُ فَيَصِحُّ الْبَيْعُ وَالشَّرْطُ)

حکم : صحیح 

4638. أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى بْنِ الطَّبَّاعِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَاضِحٍ لَنَا، ثُمَّ ذَكَرْتُ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، ثُمَّ ذَكَرَ كَلَامًا مَعْنَاهُ، فَأُزْحِفَ الْجَمَلُ فَزَجَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْتَشَطَ حَتَّى كَانَ أَمَامَ الْجَيْشِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا جَابِرُ، مَا أَرَى جَمَلَكَ إِلَّا قَدْ انْتَشَطَ»، قُلْتُ: بِبَرَكَتِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «بِعْنِيهِ، وَلَكَ ظَهْرُهُ حَتَّى تَقْدَمَ» فَبِعْتُهُ، وَكَانَتْ لِي إِلَيْهِ حَاجَةٌ شَدِيدَةٌ، وَلَكِنِّي اسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ، فَلَمَّا قَضَيْنَا غَزَاتَنَا وَدَنَوْنَا اسْتَأْذَنْتُهُ بِالتَّعْجِيلِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي حَدِيثُ عَهْدٍ بِعُرْسٍ، قَالَ: «أَبِكْرًا تَزَوَّجْتَ أَمْ ثَيِّبًا؟»، قُلْتُ: بَلْ ثَيِّبًا يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو أُصِيبَ، وَتَرَكَ جَوَارِيَ أَبْكَارًا، فَكَرِهْتُ أَنْ آتِيَهُنَّ بِمِثْلِهِنَّ، فَتَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا تُعَلِّمُهُنَّ وَتُؤَدِّبُهُنَّ، فَأَذِنَ لِي، وَقَالَ لِي: «ائْتِ أَهْلَكَ عِشَاءً». فَلَمَّا قَدِمْتُ، أَخْبَرْتُ خَالِي بِبَيْعِي الْجَمَلَ فَلَامَنِي، فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَوْتُ بِالْجَمَلِ، فَأَعْطَانِي ثَمَنَ الْجَمَلِ وَالْجَمَلَ، وَسَهْمًا مَعَ النَّاسِ

مترجم:

4638.

حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ اپنے پانی والے اونٹ پر ایک جنگ میں گیا، پھر انھوں نے لمبی حدیث بیان کی جس کا مفہوم یہ ہے کہ (واپسی کے دوران میں) اونٹ تھک کر رک گیا۔ نبی اکرم ﷺ نے اس کو ڈانٹا تو وہ اتنا تیز ہو گیا کہ سب لشکر سے آگے نکل گیا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”جابر! میں دیکھ رہا ہوں کہ تیرا اونٹ بہت تیز ہو گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”یہ مجھے بیچ دے۔ تجھے (مدینہ منورہ تک) سوار ہو کر جانے کی اجازت ہو گی۔“ میں نے آپ کو بیچ دیا جبکہ مجھے اس کی سخت ضرورت تھی۔ لیکن مجھے شرم محسوس ہوئی (کہ آپ کو انکار کروں)۔ غزوے کی تکمیل کے بعد جب ہم مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو میں آپ سے جلدی جانے کی اجازت طلب کی۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے نئی نئی شادی کی ہے۔ آپ نے فرمایا: ”کنواری سے یا شوہر دیدہ سے؟“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! شوہر دیدہ سے۔ وجہ یہ ہے کہ (میرے والد) حضرت عبد الہ بن عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہ شہید ہو گئے اور وہ چھوٹی چھوٹی کنواری بیٹیاں چھوڑ گئے۔ میں نے ناپسند کیا کہ میں ان جیسی (نو جوان لڑکی) لے آؤں، اس لیے میں نے ایک شوہر دیدہ (بیوہ یا مطلقہ) سے شادی کی جوان کو علم و ادب سکھائے۔ خیر! آپ نے مجھے اجازت دے دی۔ آپ نے فرمایا: ”شام کے وقت گھر پہنچ جانا۔“ جب میں آیا تو میں نے اپنے ماموں کو اونٹ کے فروخت کرنے کا بتایا۔ انھوں نے مجھے ملامت کی۔ جب رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے تو میں آپ کے پاس صبح کے وقت اونٹ لے کر گیا۔ آپ نے مجھے اونٹ کی قیمت بھی دی، اونٹ بھی دیا اور لوگوں کے برابر حصہ بھی دیا۔