تشریح:
(1) ”اونٹ کی جفتی کی بیع“ سے مراد جفتی کا معاوضہ ہے کیونکہ یہ اس کا فطری تقاضا ہے، لہٰذا نہ اجرت جائز ہے اور نہ نر کو روکنا جائز ہے۔ ہاں، جفتی کے بعد کوئی شخص خوشی سے نر کے مالک کو کچھ دے دے تو اس کی گنجائش ہے۔ ایسی چیز بھی کود کھانے کی بجائے نر کے مصرف ہی میں لے آئے۔ بعض فقہاء کے نزدیک یہ نہی تنزیہی ہے۔
(2) ”زمین کی فروخت“ سے مراد بٹائی یا ٹھیکہ ہے۔ اس کی تفصیلی بحث پیچھے حدیث نمبر ۳۸۹۳ میں گزر چکی ہے۔ بٹائی اور ٹھیکے میں اگر کوئی ظالمانہ شرط نہ ہو تو ان میں کوئی حرج نہیں۔