تشریح:
(1) ”تیرا قتل ہو جانا بہتر تھا“ گویا معافی مقتول اور اس کے ولی کے لیے تو بہتر اور افضل ہے مگر قاتل کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ مقتول اور اس کا ولی تو معافی کی وجہ سے جنت میں چلے جائیں گے مگر قاتل کو حساب دینا ہوگا اور عذاب سہنا ہوگا، بخلاف اس کے کہ اگر معاف نہ کیا جاتا اور قاتل کو قتل کر دیا جاتا تو قاتل کا گناہ تو معاف ہو جاتا، البتہ مقتول اور اس کے ولی کی معافی کی کوئی ضمانت نہ ہوتی۔
(2) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عدالت سے سزا ہونے کے بعد بھی قاتل، مقتول کے وارث سے معافی کی درخواست کر سکتا ہے اور وہ چاہے تو معاف کر سکتا ہے کیونکہ یہ خالصتاً اسی کا حق ہے۔ اور یہ صرف قتل کے مسئلے میں ہے۔ چوری وغیرہ کے مسئلے میں عدالت میں کیس آنے سے پہلے تو معاف کر سکتا ہے بعد میں نہیں۔ جیسا کہ دوسری حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ واللہ أعلم