تشریح:
(1) مومن کو کافر کے بدلے کسی صورت میں قتل نہیں کیا جا سکتا، خواہ مقتول ذمی ہی ہو کیونکہ مسلمان اور کافر کے خون برابر نہیں۔ البتہ ذمی کا قتل چونکہ عہد اور پناہ کی خلاف ورزی ہے، لہٰذا اس کی دیت دی جائے گی ورنہ آخرت میں منجانب اللہ سزا ہوگی۔ حکومت بھی تقریباً قید وغیرہ کی سزا دے سکتی ہے۔ واللہ أعلم! احناف ذمی کے بدلے مسلمان کے قتل کے قائل ہیں۔ وہ اس روایت کو حربی کافر، یعنی دشمن ملک کے کافر کے بارے میں قرار دیتے ہیں، حالانکہ دشمن ملک کے کافر کے بدلے تو قتل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
(2) اس حدیث سے رافضیوں کی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو کچھ خصوصی وصیتیں کی تھیں، نیز معلوم ہوا کہ جرم کی سزا صرف اور صرف مجرم کو ملے گی کسی دوسرے شخص کو نہیں۔ ہمارے معاشرے میں جو اندھا قانون ہے کہ کرے کوئی بھرے کوئی، تو یہ شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: ﴿وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى﴾ (فاطر: ۳۵: ۱۸) ”کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا (قطعاً) کوئی بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ (خواہ وہ اس کا کتنا ہی قرابت دار کیوں نہ ہو)۔“ اللہ کے قانون میں اس کی ذرہ بھر گنجائش نہیں بلکہ ایسا کرنے والا، مجرم اور لائق سزا قرار پاتا ہے۔
(3) تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ ایک دوسرے کو قوت باہم پہنچائیں، نیز وہ اپنے دشمنوں کے خلاف متحد ہوں۔
(4) جس طرح جرم کرنا گناہ ہے اسی طرح کسی مجرم کی پشت پناہی کرنا یا اسے قرار واقعی سزا سے بچانا اور اس کی سفارش وغیرہ کرنا بھی گناہ ہے۔ مزید برآں یہ بھی کہ اگر کوئی شخص باغی اور ایسے خطرناک مجرم کو پناہ اور تحفظ دے تو یہ پناہ اور تحفظ دینے والا شخص ملعون اور لعنتی ہے۔ اس شخص پر لعنت ہے اللہ تعالیٰ کی، اس کے فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی۔ اس میں ان حضرات کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو مجرموں کو تحفظ دیتے ہیں کہ وہ جھوٹی ناموری کے لیے لعنت اور پھٹکار کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔
(5) ”خصوصی وصیت“ بعض بے دین لوگوں نے مشہور کر رکھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اصل وحی کی تعلیم دی ہے۔ باقی لوگوں کے پاس ناقص وحی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کی نفی فرمائی کہ میرے پاس صرف ایک تحریر ہے۔ وہ بھی دیکھ لو تاکہ کوئی شک وشبہ نہ رہے۔ اس تحریر میں ایسے مسائل تھے جو سب لوگوں سے تعلق رکھتے تھے اور لوگوں کو الگ طور سے بھی معلوم تھے۔
(6) ”خون برابر ہیں“ اس سے مصنف رحمہ اللہ نے استدلال فرمایا ہے کہ آزاد اور غلام مومن کا خون برابر ہے، لہٰذا انھیں ایک دوسرے کے بدلے قتل کیا جا سکتا ہے۔ یہی موقف سعید بن مسیب، ابراہیم نخعی، قتادہ، سفیان ثوری اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اسی موقف کو راجح قرار دیا ہے کیونکہ مذکورہ حدیث کے مطابق مسلمانوں کے خون برابر ہیں۔ اس کے برعکس اہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک آزاد کو غلام کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔ اس میں سرفہرست سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ کا نام آتا ہے لیکن ان سے صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، نیز اس بارے میں وارد تمام احادیث بھی ضعیف ہیں۔ اس لیے راجح بات یہی ہے کہ آزاد آدمی اگر غلام کو قتل کر دے تو اسے قصاصاً قتل کیا جائے گا الا یہ کہ اس کے ورثاء دیت پر راضی ہو جائیں یا معاف کر دیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ، شرح سنن النسائي، للأتبوبي: ۳۶/ ۱۹)
(7) ”یکمشت ہیں۔“ یعنی مسلمانوں کو کفار کے مقابلے میں یکمشت رہنا چاہیے۔ آپس میں انتشار یا دشمن کی سازش کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور نہ کفار کو دوست بنانا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے کیسی بہترین مثال ارشاد فرمائی ہے کہ مومن ایک ہاتھ کی انگلیوں کی طرح ہیں جو ضرورت ہو تو یکجان ہو کر زبردست مکا بن جاتی ہیں۔
(8) ”پناہ دے سکتا ہے“ جو دوسرے مسلمانوں کو تسلیم کرنا ہوگی، خواہ پناہ دینے والا عام فوجی یا عام مسلمان ہو۔