تشریح:
(1) ”اس سے لڑے“ اس کا مطلب یہ ہے کہ ممکن حد تک سامنے سے گزرنے والے شخص کو روکے، لیکن اس حد تک نہ جائے کہ اس کی اپنی نماز ہی باطل ہو جائے کیونکہ نماز کی حفاظت کے لیے تو گزرنے والے کو روک رہا ہے۔ اگر خود ہی نماز خراب کر لی تو اس کو روکنے کا فائدہ؟ اس کی صورت یہ ہوگی کہ سامنے سے گزرنے والے شخص کو ہاتھ سے روکے، اگر گزرنے والا شخص نہ رکے بلکہ سامنے سے گزرنے پر ہی مصر رہے تو اس کے سینے میں دھکا دے، یہ نہیں کہ آستینیں چڑھا کر اس سے کشتی شروع کر دے اور نماز چھوڑ کر مار کٹائی پر اتر آئے کیونکہ اس سے اس کی اپنی نماز باطل ہو جائے گی۔
(2) امام صاحب نے اس سے استدلال فرمایا ہے کہ وہ خود بھی سزا دے سکتا ہے۔ حاکم کے پاس جانے کی کوئی ضرورت نہیں، حالانکہ کسی کو دھکا دینا یا معمولی چپت رسید کرنا نہ تو سزا کے زمرے میں آتا ہے نہ قصاص کے۔ اس سے باب پر استدلال قوی نہیں۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ معمولی سی کارروائی از خود بھی کر سکتا ہے جو عدالت کے اختیار میں نہیں آتی لیکن جو امور عدالتی اختیار کے تحت ہیں اور جن پر فوج داری جرم کا اطلاق ہوتا ہے، ان کا اختیار افراد کو نہیں، مثلاً: کسی کو اس طرح مارنا کہ وہ زخمی ہو جائے یا اس کی کوئی ہڈی ٹوٹ جائے یا کوئی عضو ضائع ہو جائے یا -اللہ نہ کرے- وہ مر ہی جائے۔ ایسی صورت میں وہ خود مجرم ہوگا اور سزا پائے گا۔
الحکم التفصیلی:
الارواہ: 694
(قلت: إسناده صحيح على شرط مسلم. وأخرجه هو والبخاري وأبو عوانة
في "صحاحهم ") .
إسناده: حدثنا القعنبي عن مالك عن زيد بن أسلم عن عبد الرحمن بن أبي
سعيد الخدري عن أبي سعيد الخدري.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم.
والحديث أخرجه مالك في "موطئه " (1/170) .
ومن طريقه أيضا: أخرجه مسلم (2/57) ، وأبو عوانة (2/43) ، والنسائي
(1/123) ، والدارمي (1/328) ، والطحاوي (1/266) ، والبيهقي (2/267) ،
والطحاوي أيضا في "الشكل " (3/250) ، وأحمد (3/34 و 43) كلهم عن
مالك... به.
وأخرجه أبو عوانة، والطحاوي، وأحمد (3/57 و 93) من طرق أخرى عن زيد
ابن أسلم... به.
رواه أحمد (3/49) من طريق زهير- وهو ابن محمد التميمي- عن زيد بن
أبي أنيسة عن عبد الرحمن بن أبي سعيد... به.
ولا أدري إن كان قوله: (زيد بن أبي أنيسة) محفوظاً أم لا؟
وله طريقان آخران عن أبي سعيد، ويأتيان في الباب بعد حديث.
وورد الحديث بزيادة فيه، وهو:
صحيح أبي داود ( و 697 )