تشریح:
(1) ”اسے قتل کردو“ آپ کا مقصود قتل کاحکم نہ تھا بلکہ یہ آپ کی پیش گوئی تھی کہ اس کا انجام کار قتل ہو گا، جو اس کے حق میں پوری ہوئی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کو بذریعہ وحی بتایا گیا ہو کہ یہ شخص باز نہیں آئے گا اور بالآخر اسے قتل کرنا پڑے گا، اس لیے آپ نے پہلی بار ہی قتل کا حکم دیا۔ صحابہ کرامؓ نے آپ کے حکم کی تعمیل میں تردد اس لیے کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود چور کی سزا ہاتھ کاٹنا بتائی تھی۔ وہ سمجھے کہ آپ کو اس کے جرم کا صحیح اندازہ نہیں ہوا، اس لیے صحابہ نے جب اس کے جرم کی دوبارہ وضاحت کی تو آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔
(2) ”پاؤں کاٹ دیا گیا“ قرآن مجید میں چوری کی سزا میں صرف ہاتھ کاٹنے کا ذکر ہے، اس لیے بعض لوگ چوری کی سزا میں پاؤں کاٹنے کے قائل نہیں لیکن جمہور اہل علم پاؤں کاٹنے کے قائل ہیں کہ دوسری چوری پر بایاں پاؤں کاٹ دیا جائے۔ پھر چوری کرلے تو بایاں ہاتھ اور پھر چوری کرے تو دایاں پاؤں۔ اگر پانچویں دفعہ چوری کرے تو اسے جیل میں ڈال دیا جائے۔بعض پانچویں دفعہ چوری پر قتل کے قائل ہیں جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔ بعض اہل عمل ایک ہاتھ اور ایک پاؤں کے بعد قطع کے قائل نہیں کیونکہ اس طرح وہ بالکل اپاہج ہو جائے گا اور اپنے کام کاج کے قابل نہیں رہے گا۔ نہ کھا پی سکے گا، نہ استنجا کرسکے گا اور نہ دوسرے کام ہی کر سکے گا۔ آخر یہ کام کون کرےگا؟ جمہور اہل علم کی دلیل آیت محاربہ بھی ہے۔ اس میں فسادی لوگوں کے لیے ہاتھ پاؤں کاٹنےکا صریح ذکر ہے۔ ﴿أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلٰفٍ﴾ (المائدۃ: ۳۳:۵) عقلا بھی ہاتھ پاؤں کا حکم ایک ہے، لہذا جمہور کا مسلک ہی صحیح ہے۔
الحکم التفصیلی:
الارواه الغليل:جزء نمبر7
قلت : بل منكر .
و أقول : كذا قال , لم يبين وجه نكارته , و لعلها من جهة متنه لمخالفته لحديث
جابر من طريقين , لا سيما و قد خولف حماد في إسناده , فقال خالد الحذاء عن يوسف
بن يعقوب عن محمد بن حاطب أن الحارث بن حاطب .... فذكر نحوه .
أخرجه الطبراني .
و يوسف بن يعقوب هذا لم أعرفه , بخلاف يوسف بن سعد فقد وثقه ابن معين و ابن
حبان , و قد ذكروا في الرواة عنه عنه خالد الحذاء , فلعل قوله في روايته في
" المعجم " .... ابن يعقوب تحريف , والله أعلم .
و الخلاصة أن الحديث من رواية جابر ثابت بمجموع طريقيه , و هو في المعنى مثل
حديث أبي هريرة فهو على هذا صحيح إن شاء الله تعالى <2> .
ثم وجدت له شاهد آخر عن عبد ربه بن أبي أمية أن الحارث بن عبد الله بن أبي
ربيعة و ابن سابط الأحول حدثاه أن النبي صلى الله عليه وسلم : أتي بعبد ...
الحديث مثل حديث جابر دون قوله : فأتي به الخامسة ...
أخرجه ابن أبي شيبة ( 11/61 ـ 62 ) و البيهقي ( 8/273 ) و قال : و هو مرسل حسن
بإسناد صحيح .
كذا قال ! و ابن أبي أمية لم يوثقه أحد , و في " التقريب " : مجهول .
[1] قلت : و هو خال ابن أبي ذئب . اهـ .
[2] و قد أشار إلى تصحيحه الإمام الشافعي بقوله : منسوخ . ذكره البيهقي
عنه 8/275 . اهـ .