تشریح:
(1) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ ثابت ہوتاہے کہ فرشتہ ،انبیاء علیہم السلام کے علاوہ دوسرے لوگوں کے سامنے بھی انسانی شکل وصورت میں آسکتا ہے، لوگ اسے دیکھ سکتے ہیں، وہ ان کی موجودگی میں باتیں کر سکتا ہے اور وہ اس کی باتیں سن بھی سکتے ہیں۔
(2) یہ شرعا پسندیدہ عمل ہے کہ بن سنور کر، نہا دھو کر اور صاف ستھرے لباس میں ملبوس ہوکر علماء اورملوک وسلاطین کی مجالس میں جایا جائے ۔ جبریل امین علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں لوگوں کو ان کا دین سکھلانے او ر تعلیم دینے کے لیے ہی آئے تھے اور وہ تعلیم انھوں نےاپنے حال ومقال کے ساتھ دی ہے۔ وہ بہترین اور صاف ستھرے لباس میں ملبوس تھے۔ ان پر تھکاوٹ اور میل کچیل کے کوئی نشان نہیں تھے۔
(3) اہل علم کی مجلس میں حاضر ہونے والے شخص کے لیے یہ بھی مناسب ہے کہ لوگوں کو کسی مسئلے کی ضرورت ہے اور پوچھ نہیں رہے تو وہ خود پوچھتے تاکہ سب لوگوں کو مسئلے کا علم ہو جائے اور اس طرح ان کی دینی ضرورت پوری ہو۔
(4) ”اچانک نظر پڑا“ یعنی دور سے آتا نظر نہیں آتا ۔ قریب ہی دیکھا ۔ پھر بالوں اور کپڑوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ ابھی گھر سےنہا دھو کر نکلا ہےمگر اسے پہچا نتا کو ئی بھی نہیں تھا۔ گویا وہ مسافر تھا۔
(5) ”اپنے گھٹنے“ بے تکلفی کے انداز میں یا شاگردوں کی طرح دو زانو ہو کر بیٹھا۔
(6) ”آپ کی رانو ں پر“ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رانوں پر جیسا کہ اگلی روایت میں اس کی تصریح ہے ۔ اس صورت میں گویا اس نے اپنے آپ کواجڈ بدوی ظاہر کیا کیونکہ یہ انداز ادب کے خلاف ہے۔
(7) اس حدیث میں اسلام اورایمان کی تعریف مختلف کی گئی ہے ۔ گویا لغوی مناسب کا لحاظ فرمایا - اسلام ظاہری کو کہا گیاہے اورا ایما قلبی تصدیق کو۔ ظاہر ہے لغۃ تو ان میں کچھ فرق ہے، البتہ شرعا کوئی فرق نہیں۔
(8) ”حیرانی ہوئی“ کیونکہ پوچھنا دلیل ہے کہ وہ ناو اقف ہے مگر تصدیق کرنا اسے عالم ظاہر کرتا ہے ۔ دراصل اس نےاپنے ہر کام میں ابہام رکھا جس سے حیرانی رہی۔
(9) ”وہ تجھے دیکھ رہا ہے “ یعنی تیرے اس کو دیکھنے کا بھی یہی مقصود کہ وہ تجھے دیکھتا ہے کیو نکہ جب انسان کو یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے تو وہ انتہائی خشوع وحضوع سے عبادت کرے گا۔ اگر اللہ تعالیٰ بندے کو نہ دیکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کے تصورسے اتنا خشوع پیدا نہیں ہوگا ۔ بعض لوگوں نے یہ مطلب بیان کیاہے کہ احسان کے دو مطلب ہیں : پہلا اور اعلی ٰ تویہ ہے کہ تو عبادت میں یوں سمجھے کہ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں ۔اگر یہ درجہ حاصل نہ ہو سک تودوسرے او ر ادنی ٰ درجہ یہ ہے کہ تو یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ تجھے دیکھ رہا ہے ۔واللہ اعلم .
(10) ان الفاظ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی شخص دنیوی زندگی میں اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتا ورنہ ’’گویا کہ ،، کہنےکی ضرورت نہیں تھی۔
(11) ”زیادہ علم نہیں رکھتا“ یعنی میں تجھ سے قیامت کا زیا علم نہیں رکھتا یا کوئی مسئول کسی سائل سے قیامت کا علم زیادہ نہیں رکھتا ۔ مطلب یہ کہ نزول قیامت کے وقت کو کوئی نہیں جانتا۔
(12) ”لونڈ ی مالک کو جنے“ بہت سے مطلب بیان کیے گئے ہیں ۔ زیادہ مناسب مطلب یہ ہے کہ اولاد نافرمان ہو جائےگی اورماؤں سے لونڈیوں جیسا سلوک کیا جائے گا ۔ گویا وہ اولاد نہیں، مالک ہیں ۔ واللہ أعلم.
(13) ’’اونچی اونچی عمارتیں ،، یعنی غریب لوگ بہت امیر ہو جائیں گے ۔ مال عام ہو جائےگا ۔تنگ ظرفی کی وجہ سے مال سنبھال نہ سکیں گے۔ عمارتیں بنانے میں ضائع کر دیں گے ۔ (14) ”ششدر رہا“ کیو نکہ جس طرح وہ اچانک آیا تھا، اسی طرح اچانک غائب ہو گیا۔ لوگوں نےبہت تلاش کیا مگر وہ ملا ۔
(15) اس حدیث کو ”جدیث جبریل“ کہتے ہیں۔
الحکم التفصیلی:
الارواہ الغلیل:3
قلت : الله ورسوله أعلم قال : فإنه جبريل اتاكم يعلمكم دينكم
رواه مسلم ( 1 / 29 ) والنسائي ( 2 / 264 - 266 ) والترمذي ( 2 / 101 ) وابن ماجه ( 63 ) وأحمد ( 1 / 27 و 28 و 52 و 53 ) وزاد في آخره " ما أتاني في صورة إلا عرفته غير هذه الصورة " وفي رواية له " فمكث يومين أو ثلاثة ثم قال : يا ابن الخطاب أتدري . . . " واسنادهما صحيح . وقال الترمذي : " حديث حسن صحيح " . ورواه الدارقطني في " سننه " ( ص 281 ) وفيه : " فجلس بين يدي رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم كما يجلس أحدنا في الصلاة ثم وضع يده على ركبتي رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم " . الحديث . وفيه : " وتحج وتعتمر وتغتسل من الجنابة وتتم الوضوء . . . " وفي آخره : " هذا جبريل أتاكم يعلمكم دينكم فخذوا عنه فوالذي نفسي بيده ما شبه علي منذ اتاني قبل مرتي هذه وما عرفته حتى ولى " . وقال : " إسناد ثابت صحيح " . وأما حديث ابن عباس فاخرجه أحمد ( 1 / 319 ) من طريق شهر عنه نحوه وفيه " واضعا كفيه على ركبتي رسول الله صلى الله عليه وسلم " واسناده حسن في الشواهد . وأما حديث أبى ذر فرواه النسائي مقرونا مع ابي هريرة كما تقدم
ابن ماجة ( 63 ) // السنة لابن أبي عاصم ( 120 - 127 ) ، الإرواء ( 1 / 33 ) //