تشریح:
(1) ”گھٹنوں پر رکھ دیا“ بطور احترام آپ کے گھٹنے چھوئے ۔ اور اس میں کوئی حرج نہیں۔
(2) ”بھیڑ بکریوں کے چرواہے“ عرب ماحول میں بھیڑ بکریوں کے چرواہوں کو فقیر اور ذلیل خیا ل کیا جاتا ہے ، البتہ اونٹوں والوں کو معزز سمجھتے تھے ۔یا اس لیے کہ چرواہے عام طور پر غلام اور نوکر ہوتے تھے ۔ عربی میں لفظ الرعاء البھم استعمال فرمایا گیا ہے ۔ اس کےکئی اور معنی بھی کیے گئے ہیں ، مثلا :کالے رنگ کے چرواہے یا غیر معروف چرواہے یا قلاش چرواہے وغیرہ۔
(3) ”پہچان نہیں سکا تھا“ آنے والے کا انداز ہی ایسا حیران کن تھا کہ آخر وقت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اندازہ نہ ہوسکا ۔ وہ تواس کے غائب ہو جانے سے معلوم ہواکہ یہ تو فرشتہ تھا ۔
(4) ”دحیہ کلبی کی صورت میں“ یہ الفاظ شاذ ہیں اور سیاق حدیث کے خلاف ہیں۔ اصل الفاظ وہی ہیں جو حضرت عمر ؓکی روایت میں ہیں لا یعرفہ منا احد کہ اسے ہم میں سے کوئی بھی پہچانتا نہیں تھا ۔ اس وضاحت سے معلوم ہو اکہ یہ الفاظ ”جو دحیہ کلبی کی صورت میں آئے تھے“ درست نہیں کیونکہ اگر وہ حضرت دحیہؓ کی صورت میں آئے ہوتے، پھر تو پہچانے جاتے۔ دیکھیے : (ذخیرۃ العقبی ٰ شرح سنن النسائی :37/229)
الحکم التفصیلی:
الارواہ الغلیل:3
قلت : الله ورسوله أعلم قال : فإنه جبريل اتاكم يعلمكم دينكم
رواه مسلم ( 1 / 29 ) والنسائي ( 2 / 264 - 266 ) والترمذي ( 2 / 101 ) وابن ماجه ( 63 ) وأحمد ( 1 / 27 و 28 و 52 و 53 ) وزاد في آخره " ما أتاني في صورة إلا عرفته غير هذه الصورة " وفي رواية له " فمكث يومين أو ثلاثة ثم قال : يا ابن الخطاب أتدري . . . " واسنادهما صحيح . وقال الترمذي : " حديث حسن صحيح " . ورواه الدارقطني في " سننه " ( ص 281 ) وفيه : " فجلس بين يدي رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم كما يجلس أحدنا في الصلاة ثم وضع يده على ركبتي رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم " . الحديث . وفيه : " وتحج وتعتمر وتغتسل من الجنابة وتتم الوضوء . . . " وفي آخره : " هذا جبريل أتاكم يعلمكم دينكم فخذوا عنه فوالذي نفسي بيده ما شبه علي منذ اتاني قبل مرتي هذه وما عرفته حتى ولى " . وقال : " إسناد ثابت صحيح " . وأما حديث ابن عباس فاخرجه أحمد ( 1 / 319 ) من طريق شهر عنه نحوه وفيه " واضعا كفيه على ركبتي رسول الله صلى الله عليه وسلم " واسناده حسن في الشواهد . وأما حديث أبى ذر فرواه النسائي مقرونا مع ابي هريرة كما تقدم
( ملاحظة : هذه الزيادة وهم كما قال الحافظ في الفتح ) // ( 1 / 125 ) - ناصر - // ، الإرواء ( 1 / 33 )