تشریح:
(1) امام نسائی رحمہ اللہ علیہ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر عورت کو عدالت اور پنچائت وغیرہ میں لائے بغیر مسئلہ حل ہو سکتا ہو تو انہیں عدالتوں اور پنچائتوں وغیرہ میں نہیں گھسیٹنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس متعلقہ خاتون کو اپنے ہاں بلانے کی بجائے، اپنی طرف سے آدمی بھیج کر اس عورت سے حقیقت حال معلوم کی اور پھر اس کے اقرار کرنے پر اس پر زنا کی مذکورہ حد نافذ کی، یعنی اسے رجم کر دیا گیا۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اپنے تمام مسائل بالخصوص حدود سے متعلق معاملات میں قرآن کے فیصلے کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اور جب کوئی مجرم و ملزم اقرار جرم کر لے تو حاکم پر واجب ہے کہ وہ اس پر حد قائم کرے۔ ہمارے ہاں ملک کے صدر کو سزائے موت ختم کرنے کا جو اختیار ہے، شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔
(3) اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ معاملے کی پختگی ظاہر کرنے کے لیے قسم کھانا درست ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ قسم کھانے کا مطالبہ نہ کیا گیا ہو تو بھی قسم کھائی جا سکتی ہے۔
(4) یہ حدیث مبارکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن خلق اور عظیم حوصلے کی صریح دلیل ہے، نیز اس بات کی بھی دلیل ہے کہ مدعی، مستفتی (فتویٰ طلب کرنے والے) اور طالب کے لیے مستحب بات یہ ہے کہ وہ قاضی، عالم دین اور حاکم کےپاس اپنا مسئلہ پیش کرنے سے پہلے اجازت طلب کرے، نیز معلوم ہوا کہ ظن و تخمین پر مبنی حکم اور فیصلہ قطعی اور یقینی دلائل و براہین کے آنے پر ختم ہوجائے گا، اس طرح خلاف شریعت کی گئی صلح مردود ہوگی اور اس سلسلے میں دیا گیا مال و متاع بھی واپس ہو جائے گا۔
(5) حد کے مقابلے میں فدیہ (مالی معاوضہ) شرعاً قابل قبول نہیں ہوگا اور نہ مالی معاوضۃ لے کر کوئی شرعی حد ساقط کی جا سکتی ہے۔ اس پر اہل علم کا اجماع ہے بالخصوص زنا چوری اور شراب نوشی وغیرہ جرم کے مرتکب پر حد قائم کی جائے گی… واللہ أعلم
(6) ”چھڑا لیا“ اس نے سمجھا کہ کسی کی بیوی سے زنا خاوند کی حق تلفی ہے، اس لیے اسے راضی کرلینا کافی ہے، حالانکہ یہ شرعی امر کی خلاف ورزی ہے جس کا تعلق معاشرے کے ساتھ ہے، لہٰذا یہ جرم خاوند کے معاف کرنے سے معاف نہیں ہوگا بلکہ مقدمہ عدالت میں آنے کے بعد لازماً سزا نافذ ہوگی۔
(7) ”کوڑے لگائے“ کیونکہ وہ خود معترف تھا۔ جرم ثابت ہو چکا تھا۔ امام مالک رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک جلا وطن کرنےکی بجائے جیل میں بھی ڈالا جا سکتا ہے۔ اور یہ صحیح ہے۔ کیونکہ مقصود حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے گھر سے باہر رہے اور متعلقہ کی جگہ کے قریب نہ جائے۔ احناف کے نزیدیک جلا وطنی سزا کا حصہ نہیں۔ لہٰذا ضروری نہیں۔ لیکن صریح حدیث کی روشنی میں یہ مؤقف محل نظر ہے۔