تشریح:
(1) عنوان کا مقصد یہ ہے کہ جس شخص کی بابت حاکم جانتا ہو کہ یہ ایسا ہے اور اس کے متعلق کوئی مسئلہ پیش ہوجائے تواس کی عدم موجودگی میں بھی اس کے خلاف فیصلہ دیا جا سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا کہ نہ توحضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کوبلایا اورنہ ان سے کچھ پوچھا کیونکہ آپ ان کی بابت جانتےتھے۔
(2) کسی کی غیبت کرنا کبیرہ گناہ ہے تاہم بعض مواقع ایسے ہیں جہاں یہ شرعاً جائز ہے۔ امام نوی رحمہ اللہ نے ان کی تعداد چھ بیان کی ہے۔ وہ فرماتےہیں: شرعی ضرورت کی بنا پرکسی زندہ یا مردہ شخص کی غیبت کرنا مباح ہے جبکہ اس کے بغیر چارہ کارنہ ہو: کسی منکر کوتبدیل کرنے یا کرانے کے لیے کسی کی مدد و استعانت کی ضرورت ہو یا کسی خطاکارکودرستی کی طرف لانا مقصود ہوتواس شخص کےسامنے جو ازالہ منکر کی قدرت واختیار رکھتا ہو معاملے کی توضیح کرنا جائز ہے اس وقت بھی مباح ہے۔ کسی مفتی اورعالم سے فتوی لینے کےلیے اسے حقیقت حال سے باخبر کرنا مثلا یہ کہنا کہ فلاں شخص نے مجھ پریہ ظلم کیا ہے اس نے مجھے میرے حق سےمحروم کردیا ہے وغیرہ یہ بھی حرام غیبت کی قسم سے نہیں بلکہ جائز ہے۔ کسی ظالم کے ظلم اوراس کے شرسے دیگر مسلمانوں کوبچانے کےلیے اس کےسیاہ کرتوتوں سے باخبر کرنا یا اہل اسلام کوان کی خیر خواہی کے پیش نظریہ بتانا کہ فلاں شخص میں یہ کمینہ پن ہے اوروہ اس اس طرح کی گھٹیا حرکتیں کرسکتا ہے لہٰذا تمھیں اس سے محتاط اورہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ رواۃ حدیث پرجرح نیز کہیں رشتے ناتےکرنے والوں کو اگلے اہل خانہ کی بابت مشورہ دینا اور ان کی کمزوریاں اورکوتاہیاں وغیرہ بیان کرنا اسی قبیل سےہے۔ اوریہ بالاتفاق جائز اورمباح بلکہ بوقت ضرورت واجب ہے۔ پانچواں مقام جہاں غیبت کرنا شرعا مباح ہے یہ ہے کہ کوئی شخص سرعام فسق وفجورکا ارتکاب کرتا ہو یا پکا بدعتی ہو یا برسرعام شراب پینے والا اورجوا وغیرہ کھیلنے والا ہوتودیگر لوگوں کواس کے ان مذکورہ سیاہ کارناموں کی اطلاع دینا جائز ہے تاکہ وہ اپنےآپ کواس سے محفوظ رکھ سکیں۔ چھٹا مقام یہ ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے لقب یا نام سے معروف ہوجوظاہراً غیبت بنتا ہو مثلاً اعرج (لنگڑا) اعمش (کمزورنگاہ والا یعنی چوندھا) اعمیٰ (اندھا) احول (بھینگا) وغیرہ تواسے بلانا بشرطیکہ تنقیص کی نیت نہ ہوتو جائز ہے ورنہ حرام ہے۔ واللہ أعلم۔
(3) قاضی اورحاکم کے لیے باہم جھگڑنے والوں کا درست فیصلہ کرنے کے لیے فریق مخالف سے دوسرے کی غیبت سننا مباح ہے جیسا کہ ذکر ہوچکا۔
(4) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ مرد کے لیے کسی اجنبی اورغیرمحرم عورت کی آواز بوقت ضررت سننا جائز ہے۔
(5) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیوی اوربچوں کا خرچہ خاوند اورباپ کے ذمے ہے۔ اکثر اہل علم کا قول ہے کہ ہ اسی قدر واجب ہے جس قدر بیوی بچوں کی جائز ضرورت ہو نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ شریعت نے جب امور کی تجدید نہیں کی ان میں عرف کا لحاظ کیا جائے۔
(6) مناسب انداز میں یعنی تمھاری سماجی حیثیت کےلحاظ سےاوریہ حیثیت بدلتی رہتی ہے ۔ امیر گھرانے میں اخراجات کی حیثیت اورہوتی ہے اورغریب گھرانے میں اور۔