تشریح:
(1) زمین پاک ہو تو کسی بھی جگہ سجدہ کیا جا سکتا ہے اور نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ گلی ہو یا بازار، گھر ہو یا مسجد۔ پلید جگہ پر نماز اور سجدہ جائز نہیں، چاہے وہ مسجد ہی میں کیوں نہ ہو۔
(2) مشہور یہ ہے کہ بیت اللہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے بنایا اور بیت المقدس حضرت سلیمان علیہ السلام نے بنایا۔ ان دونوں انبیاء علیہم السلام کے درمیان ایک ہزار سال سے زائد فاصلہ ہے۔ اس حدیث کی رو سے چالیس سال کا فاصلہ ہے، اس لیے کہا گیا ہے کہ اس حدیث میں آدم علیہ السلام کی بنا کا ذکر ہے۔ انھوں نے پہلے بیت اللہ بنایا، پھر چالیس سا ل بعد بیت المقدس بنایا۔ اور قرآن میں جو تعمیر کعبہ اور اس کی بنیادیں اٹھانے کی نسبت ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام کی طرف ہے تو اس سے سابقہ منہدم عمارت کی بنیادیں ازسرنو اٹھانا اور اس کی تعمیر کرنا مراد ہے، البتہ اہل کتاب کے نزدیک بیت المقدس حضرت یعقوب علیہ السلام نے بنایا۔ اگر یہ قول صحیح ہو تو پھر کوئی اشکال نہیں رہتا کیونکہ یعقوب علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں پیدا ہوچکے تھے۔
(3) ”ساری زمین مسجد ہے“ احادیث میں کچھ مقامات مستثنیٰ ہیں، ان کے علاوہ باقی ہر پاک جگہ پر نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ علامہ اقبال نے کیا عجیب نکتہ نکالا ہے کہ ساری زمین مسجد ہے اور مسجد پر کافروں کا قبضہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا ساری زمین آزاد کراؤ۔