تشریح:
(1) امام صاحب کا تشبیک پر استدلال واضح ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے تشبیک نماز کے اندر کی۔ اور نماز عموماً مسجد میں پڑھی جاتی ہے، لہٰذا مسجد میں تشبیک جائز ہے، البتہ اس پر اعتراض ہے کہ رکوع میں تشبیک کرکے دونوں ہاتھوں کو گھٹنوں کے درمیان رکھنا جسے علمی اصطلاح میں تطبیق کہتے ہیں، بالاتفاق منسوخ ہے، لہٰذا منسوخ سے استدلال کیسے ہوسکتا ہے جس طرح کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نسخ رکوع یا نماز کے اندر ہے، آگے پیچھے مسجد میں منع نہیں۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو اس نسخ کا علم نہ ہوا جبکہ دیگر صحابہ، مثلاً: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے صراحتاً اس کا نسخ ثابت ہے۔ دیکھیے، (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: ۵۲۵) یہاں ایک اور قابل غور مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی مسجد میں نماز کے انتظار میں بیٹھا ہو یا گھر سے نماز کی نیت سے نکلا ہو تو کیا تشبیک کرسکتا ہے؟ احادیث کو دیکھا جائے تو کچھ احادیث میں اس کی ممانعت ہے اور کچھ میں اس کا اثبات اور جواز ہے، یعنی بعض مواقع پر خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تشبیک کی ہے۔ اس کی تطبیق یہ ہے، جس کی وضاحت ابن منیر نے فرمائی ہے کہ بلاوجہ یا بلاضرورت ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالنا ممنوع ہے کیونکہ یہ عمل عبث اور بے فائدہ ہے۔ اگر تعلیم و تفہیم یا تمثل کی خاطر ہو تو درست ہے۔ اور جہاں کہیں احادیث میں اس کا اثبات ہے، وہاں یہی مقصود ہے۔ بعض کے بقول اگر نماز میں ہو یا نماز کا قصد ہو تو منع ہے۔ ممانعت کی احادیث کو اسی پر محمول کیا جائے گا۔ لیکن اگر نماز کا قصد نہ ہو بلکہ ویسے ہی مسجد میں بیٹھا ہو تو اس طرح تشبیک کرلینے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ حرمت کی ایک خاص حالت یا خاص وقت ہے، لہٰذا اوقات نماز کے علاوہ جب بھی چاہے، جائز ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ کی تبویب سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (فتح الباري: ۷۳۲/۱، حدیث: ۴۸۱) تشبیک کی حرمت پر دلالت کرنے والی بعض روایات کو کچھ علماء نے کمزور قرار دیا ہے لیکن ان کی حجیت و صحت ہی راحج ہے۔ دیکھیے: (صحیح سنن أبي داود (فصل) للألباني: ۹۳/۳)
(2) دو مقتدیوں کاامام کے دائیں بائیں کھڑا ہونا بھی منسوخ ہے۔ اس کا نسخ بھی متفق علیہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت انس رضی اللہ عنہ کے گھر کے اندر نماز پڑھنا اس کی دلیل ہے جس میں آپ نے انس اور ان کے بھائی کو اپنے پیچھے اور ان کی والدہ یا دادی کو ان کے پیچھے کھڑا کیا تھا۔ (صحیح البخاري، الصلاۃ، حدیث: ۳۸۰، و صحیح مسلم، المساجد، حدیث: ۶۵۸)
(3) مسجد میں اذان اور جماعت ہوچکی ہو تو پھر مسجد کے اندر یا قریبی محلے میں بغیر اذان و اقامت کے نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ اصل اذان و اقامت کافی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ان اصحاب وغیرہ کا موقف یہی ہے کہ جب اذان اور اقامت کے ساتھ نماز باجماعت ہوچکی ہو تو اس کے بعد آنے والے لوگ اذان اور اقامت کے بغیر نماز پڑھیں، یعنی انھیں پہلے والے لوگوں کی اذان اور اقامت ہی کافی ہے۔ اب وہ جماعت کرائیں تو بغیر اقامت کے کرائیں جبکہ جمہور علمائے سلف اور خلف کا موقف اس کے خلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے والے لوگوں کی اقامت کافی نہیں ہوگی بلکہ ان کے حق میں اقامت کہنا مسنون ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۂ العقبیٰ، شرح سنن النسائي: ۶۹/۹) امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کا اثر معلقاً ذکر کیا ہے، فرماتے ہیں: [جاء أنس إلی مسجد قد صلی فیه فأذن و أقام و صلی جماعة] (صحیح البخاري، الأذان، باب فضل صلاۃ الجماعة، رقم الباب: ۳۰) ”حضرت انس رضی اللہ عنہ ایک ایسی مسجد میں تشریف لائے جس میں نماز پڑھی جا چکی تھی تو انھوں نے اذان اور اقامت کہی اور باجماعت نماز پڑھی۔“ مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ میں یہ اثر موصولاً منقول ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کی سند صحیح قرار دی ہے۔ دیکھیے: (مختصر صحیح البخاري، بتحقیق الألباني: ۲۰۹/۱)
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح. وأخرح المرفوع منه: مسلم وأبو عوانة في
"صحيحيهما"
إسناده: حدثنا عثمان بن أبي شيبة: ثنا محمد بن فُضَيْل عن هارون بن
عنترة عن عبد الرحمن بن الاسود عن أبيه قال...
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات رجال الشيخين؛ غير هارون بن
عنترة؛ وهو ثقة.
وتناقض فيه ابن حبان! واختلف النقل عن الدارقطني؛ ففي "التهذيب ":
" وقال البرقاني: سألت الدارقطني عن عبد الملك بن هارون بن عنترة؟ فقال:
متروك يكذب، وأبوه يحتج به، وجلّه يعتبر به "!
وكذا في "الميزان " في ترجمة هارون هذا. وأما في ترجمة ابنه عبد الملك؛
فقال: إنه " يروي عن أبيه. قال الدارقطني: هما ضعيفان ".
وأقره في "اللسان ".
وأما ما نقله الزيلعي (2/33) عن النووي أنه قال:
" فيه هارون بن عنترة، وهو وإن وثقه أحمد وابن معين؛ فقد قال الدارقطني:
هو متروك كان يكذب "!
فإنه نقل خطأ عن الدارقطني؛ فإنما قال هذا في (عبد الملك) ابن المترجم، كما
نقلناه آنفاً من الكتب الموثوقة! والله أعلم. وقال المنذري في "مختصره" :
" وفي إسناده هارون بن عنترة، وقد تكلم فيه بعضهم. وقال أبو عمر النمَري:
وهذا الحديث لا يصح رفعه، والصحيح فيه عندهم التوقيف على ابن مسعود: أنه
كذلك صلى بعلقمة والأسود. وهذا الذي أشار إليه أبو عمر؛ قد أخرجه مسلم في
"صحيحه "، وهو موقوف ".
قلت: قد أخرجه مسلم مرفوعاً أيضا كما سنبينه.
وهارون بن عنترة؛ لم يتكلم فيه غير الدارقطني وابن حبان؛ مع أنهما وثقاه
أيضا؛ فالأخذ بتوثيقهما إياه أولى؛ لأمرين:
الأول: أنه جرح غير مفسر.
والأخر: أنه موافق لحكم الأئمة الأخرين عليه بالثقة.
ثم إنه لم يمرد به؛ بل قد تابعه محمد بن إسحاق عن عبد الرحمن بن
الأسود، ومنصور عن إبراهيم عن علقمة والأسود، كما يأتي.
والحديث أخرجه أحمد (رقم 4030) : حدثنا ابن فضيل... به.
وأخرجه النسائي (1/128- 129) من طريق أخرى عن ابن فضيل... به؛
لكن لم يقل: عن أبيه! فصار ظاهره الانقطاع!
وليس كذلك؛ بل هو متصل؛ بدليل رواية المصنف والنسائي؛ وفيه عنده زيادة
في أوله.
وأخرجه الطحاوي (1/181) ، والبيهقي (3/98) ، وأحمد (رقم 4311) من
طريق محمد بن إسحاق عن عبد الرحمن بن الأسود.
فهذه متابعة قوية لهارون بن عنترة.
وقد أعله النووي- كما في "نصب الراية" (2/34) - بقوله:
" وابن إسحاق مشهور بالتدليس، وقد عنعن، والمدلس إذا عنعن لا يحتج به
بالاتفاق "!
قلت: قد صرح بسماعه في رواية لأحمد (رقم 4386) : حدثنا يعقوب:
حدثنا أبي عن ابن إسحاق قال: وحدثني عبد الرحمن بن الأسي بن يزيد
النخعي قال:
دخلت أنا وعمي علقمة على عبد الله بن مسعود بالهاجرة، قال: فأقام الظهر
ليصلي، فقمنا خلفه، فأخذ بيدي ويد عمي، ثم جعل أحدنا عن يمينه والأخر عن
يساره، ثم قام بيننا، فصففنا خلفه صفاً واحدأ، قال: ثم قال: هكذا كان رسول
الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يصنع إذا كانوا ثلاثة... الحديث.
فزالت شيهة التدليس، وعاد الحديث صحيحاً لا شبهة فيه.
وتابعه أيضا أبو إسحاق عن ابن الأسود عن علقمة والأسود:
أنهما كانا مع ابن مسعود، فحضرت الصلاة، فتأً خر علقمة والأسود، فأخذ
ابن مسعود بأيديهما، فأقام أحدهما عن يمينه والآخر عن يساره، ثم ركعا، فوضعا
أيديهما على ركبهما وضرب أيديهما، ثم طبَّق بين يديه وشبك، وجعلهما بين
فخذيه، وقال: رأيت النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فعله.
أخرجه أحمد (رقم 3927 و 3928) من طريق إسرائيل عنه.
وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وإسرائيل: هو ابن يونس بن أبي
إسحاق السبيعي؛ وأبو إسحاق هو جده.
ولإسرائيل فيه إسناد آخر:
رواه مسلم (2/69) ، وأبو عوانة (2/166) من طريق عبيد الله بن موسى عنه
عن منصور عن إبراهيم عن علقمة والأسود... به مثل حديثه عن جده؛ إلا أنه
قال في آخره:
فلما صلى قال: هكذا فعل رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
فهذا صريح- أو كالصريح- في أن كلاً من الميامنة والمياسرة، والتطبيق: مرفوع
إلى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ولا يعكر على هذا: أن الأعمش رواه عن إبراهيم ولم يصرح برفع الأمر الأول
منهما؛ لما عرف أن زيادة الثقة مقبولة؛ لا سيما إذا جاءت من طريق أخرى، كما
في حديث الباب.
وحديث الأعمش سيأتي بعضه في الكتاب (رقم 814) .
وبالجملة؛ فالحديث صحيح مرفوع إلى النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وإن من أعله بالوقف
مخطئ؛ لأنه لم يتتبع طرقه، ولم يتوسع في تخريجه!