قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن النسائي: كِتَابُ الْمَسَاجِدِ (بَابُ الرُّخْصَةِ فِي الْجُلُوسِ فِيهِ وَالْخُرُوجِ مِنْهُ بِغَيْرِ صَلَاةٍ)

حکم : صحیح 

731. أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ عَنْ يُونُسَ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَأَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ قَالَ سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ حَدِيثَهُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ قَالَ وَصَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَادِمًا وَكَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ جَلَسَ لِلنَّاسِ فَلَمَّا فَعَلَ ذَلِكَ جَاءَهُ الْمُخَلَّفُونَ فَطَفِقُوا يَعْتَذِرُونَ إِلَيْهِ وَيَحْلِفُونَ لَهُ وَكَانُوا بِضْعًا وَثَمَانِينَ رَجُلًا فَقَبِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَانِيَتَهُمْ وَبَايَعَهُمْ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ وَوَكَلَ سَرَائِرَهُمْ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ حَتَّى جِئْتُ فَلَمَّا سَلَّمْتُ تَبَسَّمَ تَبَسُّمَ الْمُغْضَبِ ثُمَّ قَالَ تَعَالَ فَجِئْتُ حَتَّى جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ لِي مَا خَلَّفَكَ أَلَمْ تَكُنِ ابْتَعْتَ ظَهْرَكَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي وَاللَّهِ لَوْ جَلَسْتُ عِنْدَ غَيْرِكَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا لَرَأَيْتُ أَنِّي سَأَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ وَلَقَدْ أُعْطِيتُ جَدَلًا وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُ لَئِنْ حَدَّثْتُكَ الْيَوْمَ حَدِيثَ كَذِبٍ لِتَرْضَى بِهِ عَنِّي لَيُوشَكُ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُسْخِطُكَ عَلَيَّ وَلَئِنْ حَدَّثْتُكَ حَدِيثَ صِدْقٍ تَجِدُ عَلَيَّ فِيهِ إِنِّي لَأَرْجُو فِيهِ عَفْوَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا كُنْتُ قَطُّ أَقْوَى وَلَا أَيْسَرَ مِنِّي حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا هَذَا فَقَدْ صَدَقَ فَقُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ فِيكَ فَقُمْتُ فَمَضَيْتُ مُخْتَصَرٌ

مترجم:

731.

حضرت کعب بن مالک ؓ نے اپنا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا، جب وہ غزوۂ تبوک میں رسول اللہ ﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے، کہ رسول اللہ ﷺ صبح کے وقت تشریف لائے، اور آپ جب سفر سے واپس آتے تھے تو سب سے پہلے مسجد میں آتے اور دو رکعتیں پڑھتے، پھر لوگوں سے ملنے کے لیے بیٹھ جاتے۔ (اس دن بھی) جب آپ نے یہ کچھ کر لیا تو جو لوگ اس غزوے سے پیچھے رہ گئے تھے آکر اپنا اپنا عذر پیش کرنے لگے اور (یقین دلانے کے لیے) قسمیں کھانے لگے۔ یہ اسی سے زائد آدمی تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے ظاہری عذر کو قبول فرمایا اور ان سے بیعت اطاعت لے لی اور ان کے لیے بخشش طلب فرمائی اور ان کی باطنی حقیقت کو اللہ تعالیٰ کے سپرد فرما دیا حتیٰ کہ میں بھی آیا۔ جب میں نے سلام کہا تو آپ ناراض شخص کی طرح مسکرائے، پھر فرمایا: ”آگے آؤ۔“ میں آکر آپ کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ نے پوچھا: ”تم کیسے پیچھے رہے؟ کیا تم نے سواری نہیں خریدی تھی؟“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! اگر میں (آپ کی بجائے) کسی دنیا دار (سردار) کے پاس بیٹھا ہوتا تو میں جانتا ہوں کہ یقیناً میں اس کی ناراضی اور غصے سے نکل جاتا کیونکہ مجھے بات کرنے کا طریقہ (خوب) عنایت ہوا ہے۔ لیکن واللہ! مجھے یقین ہے کہ آپ کو راضی کرنے کے لیے اگر میں نے آپ سے جھوٹ کہہ دیا تو اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے ناراض کر دے گا اور اگر میں نے آپ کو سچ سچ کہہ دیا تو آپ (وقتی طور پر) مجھ سے ناراض ہو جائیں گے، لیکن مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا۔ واللہ! میں کبھی بھی اس قدر صاحب استطاعت و سہولت نہیں ہوا جس قدر اب تھا جب آپ سے پیچھے رہا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس نے سچ کہا ہے (پھر مجھ سے فرمایا:) تم اٹھ جائو، حتیٰ کہ تمھارے بارے میں اللہ تعالیٰ کوئی فیصلہ فرمائے۔“ میں اٹھ کے چلا آیا۔ یہ روایت مختصر ہے۔