تشریح:
(1) یہ روایت السنن الکبریٰ میں بھی موجود ہے، دونوں جگہ (صغریٰ اور کبریٰ میں) اعمش سے بیان کرنے والے فضیل بن عیاض ہیں جو أفرا کے بعد أقدم فن الھجرۃ اور اس کے بعد أعلم بالسنۃ کا درج بیان کرتے ہیں، جبکہ یہی روایت صحیح مسلم میں بھی ہے۔ وہ اعمش سے روایت کرنے والے ابوخالد احمر ہیں جو أفرا کے بعد أعلم بالسنة کا درج بیان کرتے ہیں اور اس کے بعد أقدم فن الھجرۃ کا۔ اس روایت کے دیگر طرق پر غور کرنے سے پتہ چلتا ے کہ اعمش کے باقی شاگرد، ابو معاویہ، جریر، ابن فضیل، سفیان اور عبداللہ بن وغیرہ ابو خالد احمر کی مطابقت کرتے ہیں جو أعلم بالسنة کا دوسرا درجہ بیان کرتا ے اور فضیل بن عیاض کی مخالفت کرتے ہیں۔ تو ثابت ہوا کہ فضیل بن عیاض أعلم بالسنة سے أقدم في الھجرة کو مقدم بیان کرنے میں متفرد ہے جبکہ فی الحقیقت أعلم بالسنة، أقدم فن الھجرة سے مقدم ہے جیسا کہ اعمش کے دیگر حفاظ شاگرد بیان کرتے ہیں، لہٰذا پہلا درجہ أقرا لکتاب اللہ کا ہے، دوسرا أعلم بالسنة کا، تیسرا أقدم في الھجرة کا اور چوتھا عمر میں بڑے کا۔
(2) امام کی نہ کسی فضیلت میں مقتدیوں سےزائد ہونا چاہیے، علم ہو یا مرتبہ یا عمر۔ ہجرت بھی مرتبہ اور فضیلت میں اضافے کا موجب ہے۔
(3) اس درجہ بندی سے معلوم ہوا کہ جو حفظ و قراءت میں مقدم ہو اور اسے قرآن مجید زیادہ یاد ہو، امامت کےلیے اسے ہی آگے کیا جائے گا۔ جو صرف عالم دین ہو، سنت کی معرفت زیادہ رکھتا ہو، اس کا درجہ قاریٔ قرآن کے بعد ے، بشرطیکہ وہ نماز کے واجبات و ارکان سے واقف ہو۔ اگر یہ اہلیت نہ رکھتا ہو تو اسے اس کی تربیت دی جائے کیونکہ امامت کا زیادہ حق دار وہی ہے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن سلمہ کے قبیلے کے افراد کو بھی اس بات کی تلقین کی تھی، حالانکہ افرادِ قبیل ان سے أعلم (علم میں فائق) تھے اور عمر میں بھی بڑے، چونکہ عمرو بن سلمہ چھ سات سال کے تھے، اس لیے بڑوں نے پلے ان کی تربیت کی اور بعد ازاں امامت کے لیے آگے کیا۔ یاد رہے! دیگر کچھ مقاصد کے پیش نظر صرف عالم دین کو بھی امامت کے لیے آگے کیا جا سکتا ہے، نیز یہ مسئلہ وہاں قابل عمل ہے جہاں کسی کا باقاعدہ تقرر نہ ہو، یعنی اگر کسی کی باقاعدہ امام کی حیثیت سے نماز پڑھانے کی ذمہ داری ہو تو اسی کو مقدم کیا جائے گا۔ ہاں، یہ ضروری ہے کہ اس عظیم منصب کے لیے کسی صاحب علم و دین اور حافظ قرآن ہی کا انتخاب کیا جائے۔
(4) کسی کی سلطنت و امامت والی جگہ میں بلا اجازت امامت منع ہے۔ جب وہ خود اجازت دے یا درخواست کرے تو امامت بھی کرا سکتا ہے اور اس کی مسند پر بیٹھ بھی سکتا ہے، جیسے استاد و شاگرد۔ بعض حضرات نے اجازت کی قید صرف مسند پر بیٹھنے کے لیے قرار دی ہے گویا امامت اجازت کے ساتھ بھی نہیں کرا سکتا مگر یہ بات صحیح نہیں اور نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے اس کی تائید ہوتی ہے بلکہ بعض مواقع پر ناقابل عمل بھی ہے، مثلاً: تراویح وغیرہ میں حافظ، امامت وقت کی امامت کرا سکتا ہے۔