تشریح:
یہ روایت بھی جماعت کو فرض کہنے والوں کی دلیل ہے ورنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بے سہارا نابینے صحابی کو رخصت دے دیتے۔ پہلے آپ نے رخصت دے دی تھی، پھر معلوم ہوا کہ وہ مسجد سے زیادہ دور نہیں رہتا، وہاں نماز کی اذان سنائی دیتی ہے، اتنے قریب سے وہ اکیلا بھی آسکتا ہے۔ ویسے بھی جماعت کے وقت اتنے فاصلے سے آنے والے بہت ہوتے ہیں، کوئی نہ کوئی پکڑ کر لے آئے گا۔ ایسے لگتا ہے کہ پہلے آپ نے سمجھا ہوگا کہ یہ آدمی دور رہتا ہے، ساتھی کوئی نہیں، اکیلا نہیں آسکے گا۔ یہ کوئی اجتہاد کی تبدیلی نہیں، نہ اس کے لیے کسی نئی وحی کا اترنا ضروری ہے بلکہ یہ فتویٰ سائل کے حالات پر موقوف ہے۔ بعض علماء نے کہا ہے کہ حاضر ی کا حکم استحباب کے لیے ہے، وجوب کے لیے نہیں، لیکن مندرجہ بالا توجیہ کی صورت میں یہ بات کوئی قوی نہیں۔