تشریح:
(1) یہ روایت صحیح بخاری میں بھی اسی طرح ہے۔ علاوہ ازیں صحیح ابن خزیمہ، سنن بیہقی وغیرہ میں بھی یہ روایت [فتوضا] کے ساتھ ہے لیکن صحیح مسلم میں [فتوضا] کے بغیر ہے۔ جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تین مرتبہ ناک جھاڑنے کا حکم نیند سے بیدار ہونے والے ہر ایک کے لیے ہے۔ اور اسی کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی ترجیح دی ہے۔ دیکھیے: (فتح الباري: ۴۱۳/۶، تحت حدیث: ۳۲۹۵) صحیح بخاری اور سنن نسائی وغیرہ کے الفاظ سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو نیند سے اٹھ کر وضو کرے، تو وہ یہ عمل کرے۔ گویا یہ حکم تاکید کے طور پر ان کے لیے ہے جو رات کو اٹھ کر وضو کریں، ورنہ تین مرتبہ ناک میں پانی چڑھانے اور تین مرتبہ ناک جھاڑنے کا حکم ہر وضو کرنے والے کے لیے ہے۔ بعض ائمہ کے خیال میں دونوں احادیث کے پیش نظر…… یہ حکم دونوں کے لیے ہے، سو کر اٹھنے والے کے لیے بھی اور وضو کرنے والے کے لیے بھی۔ ایک تیسری رائے یہ بھی ہے کہ [فتوضا] کے بغیر یہ روایت صرف ایک ہی راوی کی ہے جب کہ دوسرے بیشتر راوی یہ [فتوضا] کے ساتھ بیان کرتے ہیں، اس لیے یہ روایت اس اضافے کے ساتھ ہی راجح معلوم ہوتی ہے۔ اس صورت میں اس حدیث کا یہ حکم صرف ان لوگوں کے لیے ہوگا جو اٹھ کر نماز پڑھنا چاہیں اور اس کے لیے وہ وضو کریں۔ ہر بیدار ہونے والے کے لیے یہ حکم نہیں ہوگا کہ وہ اٹھ کر تین مرتبہ ناک جھاڑے۔
(2) شیطان کے رات گزارنے سے مراد یہی ہے کہ شیطان ساری رات ناک کی جڑ میں بسر کرتا ہے۔ محدثین نے بھی ان الفاظ کو حقیقت ظاہری پر محمول کیا ہے کیونکہ یہ اس کے لیے جسم میں داخل ہونے کا واحد راستہ ہے جس سے وہ دل تک پہنچتا ہے۔ اور ناک جھاڑنے سے مقصود اس کے اثرات ختم کرنا ہے۔