تشریح:
(1) یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے کہ آپ نماز میں بھی بلائیں تو جانا فرض ہے اور جواب دینا بھی۔
(2) سبع مثانی کے بارے میں مفسرین کا اختلاف ہے کہ اس سے کیا مرادہے؟ ابن مسعود، ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ اس سے مراد سات طویل سورتیں، یعنی: بقرہ، آل عمران، نساء، مائدہ، انعام، اعراف اور یونس ہیں کیونکہ ان سورتوں میں فرائض، حدود، قصص اور احکام بیان کیے گئے ہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد سورۂ فاتحہ ہے اور یہ سات آیات پر مشتمل ہے۔ یہ تفسیر حضرت علی، حضرت عمر اور ایک روایت کے مطابق حضرت ابن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے منقول ہے۔ دیکھیے: (تفسیر الطبری:۱۴: ۷۲،۷۳) امام بخاری رحمہ اللہ اس بارے میں حدیث بیان کرتے ہیں، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [أُمُّ القرآنِ وَهيَ السَّبعُ المَثاني وَهيَ القرآنُ العظيمُ] ”ام القرآن (سورۂ فاتحہ) ہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے۔“ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:۴۷۰۴) یہ حدیث مبارکہ دلیل ہے کہ سورۂ فاتحہ ہی سبع مثانی، نماز میں دوہرا کر پڑھی جانی والی سات آیات اور قرآن عظیم ہے لیکن یہ اس کے منافی نہیں کہ سات طویل سورتوں کو بھی سبع مثانی قرار دیا جائے۔ کیونکہ ان میں بھی یہ وصف موجود ہے بلکہ یہ اس کے بھی منافی نہیں کہ پورے قرآن کو سبع مثانی قرار دیا جائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اللَّهُ نزلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِيَ﴾ (الزمر: ۳۹: ۲۳) ”اللہ نے کتابی شکل میں بہترین کلام اتارا ہے جس کی ملتی جلتی آیات و احکام باربار دوہرائے جاتے ہیں۔“ یعنی اس کتاب کی آیات باربار دوہرائی بھی جاتی ہیں اور یہ قرآن عظیم بھی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ سورۂ فاتحہ کو قرآن مجید اس لیے کہا گیا ہے کہ قرآن کریم میں جو توحیدورسالت، آخرت، اوامرونواہی، تبشیروانذار، انعامات، قصص و واقعات اور سابقہ امتوں کا بیان ہے، سورۂ فاتحہ میں یہ سب کچھ اختصارواجمال کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے۔ واللہ أعلم۔
(3) جب اللہ اور اس کے رسول کا حکم آجائے تو بلاتامل فوراً اسے تسلیم کرلینا چاہیے اور اس کے مقابلے میں اپنی یا کسی امتی کی رائے یا قیاس پیش نہیں کرنا چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وقد أخرجه في "صحيحهما)
إسناده: حدثنا عبيد الله بن معاذ: ثنا خالد: ثنا شعبة عن خبَيْب بن
عبد الرحمن قال: سمعت حفص بن عاصم يحدث عن أبي سعيد بن المُعَلى.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات على شرط الشيخين؛ وقد أخرجه
البخاري كما يأتي.
والحديث أخرجه النسائي (1/145) من طريق أخرى عن خالد- وهو ابن
________________________________________
مَهْران الحَذأء- عن شعبة-.- به
وأخرجه الطيالسي (1266) : حدثنا شعبة.-. به.
البخاري (8/119 و 9/49) ، والطحاوي (2/77) ، وأحمد (4/211) من
طرق أخرى عن شعبة... به.