Sunan-nasai:
The Book of The At-Tatbiq (Clasping One's Hands Together)
(Chapter: Another kind)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1133.
حضرت حذیفہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ نے (سورۂ فاتحہ کے بعد) سورۂ بقرہ شروع کی۔ آپ نے سو آیات پڑھ لیں مگر رکوع نہ فرمایا بلکہ قراءت جاری رکھی۔ میں نے سوچا: آپ دو رکعات میں پوری کرلیں گے مگر آپ نے قراءت جاری رکھی۔ میں نے (دل میں) کہا: یہ سورت ختم کرکے رکوع فرمائیں گے مگر آپ پڑھتے رہے حتیٰ کہ سورۂ نساء بھی پڑھ ڈالی۔ پھر سورۂ آل عمران پڑھی، پھر تقریباً اپنے قیام کے برابر رکوع فرمایا۔ اپنے رکوع میں کہتے رہے: [سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ، سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ، سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ] پر سر اٹھایا اور فرمایا: [سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ] اور بہت دیر تک کھڑے (کچھ پڑھتے) رہے۔ پھر سجدہ فرمایا اور بہت لمبا سجدہ فرمایا۔ اور سجدے میں پڑھتے رہے: [سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى، سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى، سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى] آپ جونہی کوئی ڈرانے والی یا اللہ تعالیٰ کی عظمت والی آیت پڑھتے تو (اس کے مناسب) دعا اور اللہ کا ذکر فرماتے۔
تشریح:
(1) آپ نے سورۂ نساء پہلے پڑھی، آل عمران بعد میں۔ اس سے معلوم ہوا کہ قراءت میں سورتوں کی ترتیب میں تقدیم و تاخیر جائز ہے۔ (2) اس حدیث میں رکوع اور سجدے کی مذکورہ تسبیحات مختصر اور جامع ہیں، اس لیے امت میں یہی رائج ہوچکی ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ فرض نماز میں ان کے علاوہ دوسری تسبیحات یا ادعیہ جائز ہی نہیں بلکہ اپنے ذوق اور جماعت کی صورت میں، مقتدیوں اور امام کا لحاظ رکھتے ہوئے کوئی سی تسبیحات پڑھی جا سکتی ہیں۔ (3) قراءت قرآن کے وقت الفاظ و معانی کی طرف پوری توجہ دینا اور پھر ان سے متاثر ہونا، اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کا سوال، سزا اور عذاب سے تعوذ، صالحین کی معیت اور مفسدین سے بچاؤ، دخول جنت اور جہنم سے نجات کی دعائیں کرنا نمازی کے خشوع خضوع کی دلیل ہے اور یہی نماز سے مطلوب ہے۔ اس میں فرض اور نفل نماز کا کوئی فرق نہیں، البتہ مقتدیوں کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ (4) کیا مقتدی بھی امام کی قراءت میں کسی سوال کا جواب، حکم کی بجا آوری اور رحمت کی دعا وغیرہ کرسکتے ہیں؟ علمائے امت کا اس میں اختلاف ہے۔ کچھ عدم جواز کے قائل ہیں اور کچھ نے عمومات سے استدلال کرتے ہوئے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ صرف قاری جواب دے گا کیونکہ حدیث میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب دینے کا ذکر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود قراءت کر رہے تھے کیونکہ آپ امام تھے۔ اسی طرح منفرد بھی جواب دے گا کیونکہ وہ بھی خود قراءت کرتا ہے، مقتدی جواب نہیں دے گا کیونکہ وہ فاتحہ کے علاوہ قراءت نہیں کرتا۔ واللہ أعلم۔
حضرت حذیفہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ نے (سورۂ فاتحہ کے بعد) سورۂ بقرہ شروع کی۔ آپ نے سو آیات پڑھ لیں مگر رکوع نہ فرمایا بلکہ قراءت جاری رکھی۔ میں نے سوچا: آپ دو رکعات میں پوری کرلیں گے مگر آپ نے قراءت جاری رکھی۔ میں نے (دل میں) کہا: یہ سورت ختم کرکے رکوع فرمائیں گے مگر آپ پڑھتے رہے حتیٰ کہ سورۂ نساء بھی پڑھ ڈالی۔ پھر سورۂ آل عمران پڑھی، پھر تقریباً اپنے قیام کے برابر رکوع فرمایا۔ اپنے رکوع میں کہتے رہے: [سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ، سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ، سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ] پر سر اٹھایا اور فرمایا: [سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ] اور بہت دیر تک کھڑے (کچھ پڑھتے) رہے۔ پھر سجدہ فرمایا اور بہت لمبا سجدہ فرمایا۔ اور سجدے میں پڑھتے رہے: [سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى، سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى، سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى] آپ جونہی کوئی ڈرانے والی یا اللہ تعالیٰ کی عظمت والی آیت پڑھتے تو (اس کے مناسب) دعا اور اللہ کا ذکر فرماتے۔
حدیث حاشیہ:
(1) آپ نے سورۂ نساء پہلے پڑھی، آل عمران بعد میں۔ اس سے معلوم ہوا کہ قراءت میں سورتوں کی ترتیب میں تقدیم و تاخیر جائز ہے۔ (2) اس حدیث میں رکوع اور سجدے کی مذکورہ تسبیحات مختصر اور جامع ہیں، اس لیے امت میں یہی رائج ہوچکی ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ فرض نماز میں ان کے علاوہ دوسری تسبیحات یا ادعیہ جائز ہی نہیں بلکہ اپنے ذوق اور جماعت کی صورت میں، مقتدیوں اور امام کا لحاظ رکھتے ہوئے کوئی سی تسبیحات پڑھی جا سکتی ہیں۔ (3) قراءت قرآن کے وقت الفاظ و معانی کی طرف پوری توجہ دینا اور پھر ان سے متاثر ہونا، اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کا سوال، سزا اور عذاب سے تعوذ، صالحین کی معیت اور مفسدین سے بچاؤ، دخول جنت اور جہنم سے نجات کی دعائیں کرنا نمازی کے خشوع خضوع کی دلیل ہے اور یہی نماز سے مطلوب ہے۔ اس میں فرض اور نفل نماز کا کوئی فرق نہیں، البتہ مقتدیوں کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ (4) کیا مقتدی بھی امام کی قراءت میں کسی سوال کا جواب، حکم کی بجا آوری اور رحمت کی دعا وغیرہ کرسکتے ہیں؟ علمائے امت کا اس میں اختلاف ہے۔ کچھ عدم جواز کے قائل ہیں اور کچھ نے عمومات سے استدلال کرتے ہوئے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ راجح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ صرف قاری جواب دے گا کیونکہ حدیث میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب دینے کا ذکر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود قراءت کر رہے تھے کیونکہ آپ امام تھے۔ اسی طرح منفرد بھی جواب دے گا کیونکہ وہ بھی خود قراءت کرتا ہے، مقتدی جواب نہیں دے گا کیونکہ وہ فاتحہ کے علاوہ قراءت نہیں کرتا۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حذیفہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، تو آپ نے سورۃ البقرہ شروع کر دی، آپ نے سو آیتیں پڑھ لیں لیکن رکوع نہیں کیا، اور آگے بڑھ گئے، میں نے اپنے جی میں کہا: لگتا ہے کہ آپ اسے دونوں رکعتوں میں ختم کر دیں گے، لیکن آپ برابر آگے بڑھتے رہے، تو میں نے اپنے جی میں کہا کہ آپ اسے ختم کر کے ہی پھر رکوع کریں گے، لیکن آپ سورت ختم کر کے آگے بڑھ گئے یہاں تک کہ پوری سورۃ نساء آپ نے پڑھ ڈالی، پھر سورۃ اٰل عمران بھی پڑھ ڈالی، پھر تقریباً اپنے قیام ہی کے برابر رکوع میں رہے، اپنے رکوع میں کہہ رہے تھے: «سبحان ربي العظيم سبحان ربي العظيم سبحان ربي العظيم» پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا، اور «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ» کہا، اور دیر تک کھڑے رہے، پھر آپ نے سجدہ کیا تو دیر تک سجدہ میں رہے، آپ سجدے میں کہہ رہے تھے: «سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى» جب آپ کسی خوف کی یا اللہ تعالیٰ کی بڑائی کی آیت پر سے گزرتے، تو اللہ کا ذکر کرتے یعنی اس کی حمد و ثنا کرتے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Awf bin Malik (RA) said: "I prayed Qiyam with the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم). He started by using the Siwak and performing wudu, then he stood and prayed. He started reciting Al-Baqarah and he did not come to any verse that spoke of mercy but he paused and asked for mercy, and he did not come to any verse that spoke of punishment but he paused (and sought refuge with Allah from that). Then he bowed and he stayed bowing for as long as he had stood,a nd he said while bowing: 'Subhanaka Dhil-jabaraut wal-malakut wal-kibriya' wal-'azamah (Glory be to the One Who has all power, sovereignty, magnificence and might.)' Then he prostrated for as long as he had bowed, saying while prostrating: 'Subhana Dhil-jabarut wal-malakut wal-kibriya' wal-'azamah (Glory be to the One Who has all power, sovereignty, magnificence and might.)' Then he recited Al Imran, then another surah and another, doing that each time."