باب: رووزے کی نیت اور اس بارے میں حضرت عائشہؓ کی حدیث (کے بیان کرنے) میں طلحہ بن یحیٰ بن طلحہ کے شاگردوں کا اختلاف
)
Sunan-nasai:
The Book of Fasting
(Chapter: The intention to fast, and the differences reported from Talhah bin Yahya in the narration of 'Aishah about it)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2322.
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہﷺ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”کیا تمہارے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟“ میں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”چلو میں روزہ رکھ لیتا ہوں۔“ پھر کسی اور دن میرے پاس سے گزرے۔ اتفاقاً اس وقت مجھے حیس کا تحفہ آیا ہوا تھا اور میں نے آپ کے لیے کچھ رکھ چھوڑا تھا۔ آپ حیس کو بہت پسند فرماتے تھے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہمارے پاس حیس کا تحفہ آیا ہے اور میں نے آپ کے لیے کچھ محفوظ رکھا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”لاؤ پیش کرو۔ میں نے تو آج روزے کی نیت کر رکھی تھی۔“ پھر آپ نے وہ حیس کھایا اور فرمایا: ”نفل روزے کی مثال ایسی ہے جیسے آدمی اپنے مال سے صدقہ نکالے، پھر چاہے اسے خرچ کر دے، چاہے اپنے پاس رکھ لے۔“
تشریح:
(1) حیس یہ عربوں میں ایک معروف کھانا تھا جو کھجور، پنیر اور گھی وغیرہ سے تیار کیا جاتا تھا۔ چونکہ کھانے مختلف ہوتے ہیں اور ہر قوم کے اپنے اپنے کھانے ہوتے ہیں، لہٰذا دوسری زبان میں ہر کھانے کا ترجمہ ممکن نہیں، خصوصاً جبکہ یہ کھانا ہمارے ہاں تیار ہی نہیں کیا جاتا تو اس کا نام کیسے ہوگا؟ (2) نفل روزے کو بلا وجہ ختم کیا جا سکتا ہے کیونکہ نفل عبادت انسان کی اپنی مرضی پر موقوف ہوتی ہے۔ ایسے روزے کی قضا ادا کرنا واجب نہیں کیونکہ جب اصل روزہ ہی نفل ہے تو قضا ادا کرنی کیسے واجب ہو سکتی ہے؟ البتہ جواز میں کوئی شبہ نہیں، جیسے وتر کہ نبی اکرمﷺ ان کی قضا ادا کیا کرتے تھے اور امت کو بھی اس کی ترغیب دی۔ (3) بعض اہل علم نے نفل روزے کی نیت کو نصف النہار سے قبل ضروری قرار دیا ہے تاکہ اکثر روزہ نیت کے ساتھ ہو اور یہ معقول بات ہے۔ (4) نبی اکرمﷺ کائنات کے زاہد اور متقی ترین انسان تھے۔ آپ کی نظر دنیاوی ملذذات کے بجائے ہمیشہ اخروی نعمتوں پر ہوتی تھی…ﷺ… (5) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم طعام وشراب میں نبی اکرمﷺ کو یاد رکھتے تھے۔ آپﷺ کو تحفے تحائف بھیج کر اپنی عقیدت ومحبت کا اظہار کرتے رہتے تھے۔ رضي اللہ عنهم ورضواعنه۔ (6) اچھے واعظ کی نشانی ہے کہ وہ مثالوں سے اپنی بات سامعین کے ذہنوں میں اچھی طرح نقش کر دیتا ہے۔ مثال سے بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے۔ (7) کوئی چیز نفلی صدقے کی نیت سے علیحدہ کرنا اور پھر اسے صدقہ نہ کرنا جائز ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2323
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2321
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2324
تمہید کتاب
الصيام کے لغوی معنی ہیں اَلإمساك کہا جاتا ہے[فلان صام عن الكلام] فلاں شخص گفتگو سے رک گیا ہے شرعی طور پر اس کے معنی ہیں طلوع فجر سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے ‘پینے اور جماع سے شرعی طریقے کے مطابق رک جانا ‘نیز لغویات بے ہودہ گوئی اور مکروہ حرام کلام سے رک جانا بھی اس میں شامل ہے ۔
تمہید باب
طلحہ کے بعض شاگرد ان کا استاد مجاہد بتاتے ہیں اور بعض عائشہ بنت طلحہ کو، معلوم ہوتا ہے کہ دونوں صحیح ہیں جیسا کہ روایت: 2330میں صراحت ہے۔ غرض طلحۃ عن مجاہد عن عائشۃؓاور طلحۃ عن عائشۃ بنت طلحۃ عن عائشۃؓاسی طرح عن عائشۃ بنت طلحۃ ومجاہد کلاھما عن عائشۃؓاور طلحۃ عن مجاہد وام کلثوم: ان رسول اللہﷺمرسلا، یہ سب طرق صحیح، ان میں اختلاف اور تضاد نہیں
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہﷺ میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”کیا تمہارے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟“ میں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”چلو میں روزہ رکھ لیتا ہوں۔“ پھر کسی اور دن میرے پاس سے گزرے۔ اتفاقاً اس وقت مجھے حیس کا تحفہ آیا ہوا تھا اور میں نے آپ کے لیے کچھ رکھ چھوڑا تھا۔ آپ حیس کو بہت پسند فرماتے تھے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہمارے پاس حیس کا تحفہ آیا ہے اور میں نے آپ کے لیے کچھ محفوظ رکھا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”لاؤ پیش کرو۔ میں نے تو آج روزے کی نیت کر رکھی تھی۔“ پھر آپ نے وہ حیس کھایا اور فرمایا: ”نفل روزے کی مثال ایسی ہے جیسے آدمی اپنے مال سے صدقہ نکالے، پھر چاہے اسے خرچ کر دے، چاہے اپنے پاس رکھ لے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) حیس یہ عربوں میں ایک معروف کھانا تھا جو کھجور، پنیر اور گھی وغیرہ سے تیار کیا جاتا تھا۔ چونکہ کھانے مختلف ہوتے ہیں اور ہر قوم کے اپنے اپنے کھانے ہوتے ہیں، لہٰذا دوسری زبان میں ہر کھانے کا ترجمہ ممکن نہیں، خصوصاً جبکہ یہ کھانا ہمارے ہاں تیار ہی نہیں کیا جاتا تو اس کا نام کیسے ہوگا؟ (2) نفل روزے کو بلا وجہ ختم کیا جا سکتا ہے کیونکہ نفل عبادت انسان کی اپنی مرضی پر موقوف ہوتی ہے۔ ایسے روزے کی قضا ادا کرنا واجب نہیں کیونکہ جب اصل روزہ ہی نفل ہے تو قضا ادا کرنی کیسے واجب ہو سکتی ہے؟ البتہ جواز میں کوئی شبہ نہیں، جیسے وتر کہ نبی اکرمﷺ ان کی قضا ادا کیا کرتے تھے اور امت کو بھی اس کی ترغیب دی۔ (3) بعض اہل علم نے نفل روزے کی نیت کو نصف النہار سے قبل ضروری قرار دیا ہے تاکہ اکثر روزہ نیت کے ساتھ ہو اور یہ معقول بات ہے۔ (4) نبی اکرمﷺ کائنات کے زاہد اور متقی ترین انسان تھے۔ آپ کی نظر دنیاوی ملذذات کے بجائے ہمیشہ اخروی نعمتوں پر ہوتی تھی…ﷺ… (5) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم طعام وشراب میں نبی اکرمﷺ کو یاد رکھتے تھے۔ آپﷺ کو تحفے تحائف بھیج کر اپنی عقیدت ومحبت کا اظہار کرتے رہتے تھے۔ رضي اللہ عنهم ورضواعنه۔ (6) اچھے واعظ کی نشانی ہے کہ وہ مثالوں سے اپنی بات سامعین کے ذہنوں میں اچھی طرح نقش کر دیتا ہے۔ مثال سے بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے۔ (7) کوئی چیز نفلی صدقے کی نیت سے علیحدہ کرنا اور پھر اسے صدقہ نہ کرنا جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن میرے پاس آئے، اور پوچھا: ”کیا تمہارے پاس کچھ (کھانے کو) ہے؟“ تو میں نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”تو میں روزہ سے ہوں“، اس دن کے بعد پھر ایک دن آپ میرے پاس سے گزرے، اس دن میرے پاس تحفہ میں حیس۱؎ آیا ہوا تھا، میں نے اس میں سے آپ کے لیے نکال کر چھپا رکھا تھا، آپ کو حیس بہت پسند تھا، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے حیس تحفے میں دیا گیا ہے، میں نے اس میں سے آپ کے لیے چھپا کر رکھا ہے، آپ نے فرمایا: ”لاؤ حاضر کرو، اگرچہ میں نے صبح سے ہی روزہ کی نیت کر رکھی ہے“ (مگر کھاؤ گا) تو آپ ﷺ نے کھایا، پھر فرمایا: ”نفلی روزہ کی مثال اس آدمی کی سی ہے جو اپنے مال میں سے (نفلی) صدقہ نکالتا ہے، جی چاہا دے دیا، جی چاہا نہیں دیا، روک لیا۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎ : حیس ایک کھانا ہے جو کھجور، پنیر، گھی اور آٹے سے بنایا جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that 'Aishah (RA) said: “The Messenger of Allah (ﷺ) came to me one day and said: ‘Do you have anything (to eat)?’ I said: ‘No.’ He said: ‘Then I am fasting.’ Then he came to me after that day, and I had been given some Hais. I had kept some for him as he liked Hais. She said: ‘Messenger of Allah (ﷺ), we have been given some Hais and I kept some for you.’ He said: ‘Bring it here. I started the day fasting.’ Then he ate some of it, then he said: ‘The likeness of a Voluntary fast is that of a man who allocated some of his wealth to give in charity; if he wishes he may go ahead and give it, and if he wishes he may keep it.” (Hasan)