ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2521
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2519
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2521.01
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ابن ابی عمر سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ”معتبر ماپ مدینہ والوں کا ہے اور معتبر وزن مکے والوں کا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
´عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پیمانہ اہل مدینہ کا پیمانہ ہے اور وزن اہل مکہ کا وزن ہے۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎: اس سے مراد سونا اور چاندی وزن کرنے کے بانٹ ہیں کیونکہ ان کا وزن دراہم سے کیا جاتا تھا اور اس وقت مختلف شہروں کے دراہم مختلف وزن کے ہوتے تھے اس لیے کہا گیا کہ زکاۃ کے سلسلہ میں اہل مکہ کے دراہم کا اعتبار ہو گا، اور ایک قول یہ ہے کہ چوں کہ اہل مدینہ کاشتکار تھے اس لیے وہ پیمائش اور ناپ کے احوال کے زیادہ جانکار تھے اور مکہ والے عام طور سے تاجر تھے اس لیے وہ تول کے احوال کے زیادہ واقف کار تھے اس لیے ایسا کہا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn ‘Umar that the Prophet (ﷺ) said: “The measure (to be used) is the measure of the people of Al Madinah, and the weight (to be used) is the weight of the people of Makkah.” (Da’if)