Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: The Charity Of A Slave)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2537.
حضرت عمیر مولیٰ آبی اللحم ؓ سے مروی ہے کہ مجھے میرے مالک نے حکم دیا کہ میں کچھ گوشت تیار کروں۔ اتفاقاً ایک مسکین آگیا۔ میں نے کچھ اسے کھلا دیا۔ میرے مالک کو اس کا علم ہوا تو اس نے مجھے مارا۔ میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا (اور شکایت کی)۔ آپ نے اسے بلایا اور فرمایا: ”تو نے اسے کیوں مارا؟“ اس نے کہا: یہ میری اجازت کے بغیر میرا کھانا (فقراء کو) کھلاتا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”(پھر کیا ہوا؟) ثواب تم دونوں کو ملے گا۔“
تشریح:
(1) ”آبی اللحم“ یہ ان کا لقب تھا۔ نام خلف بتایا جاتا ہے۔ اور بھی اقوال ہیں اس کے لفظی معنیٰ ہیں: گوشت کا انکار کرنے والا۔ ان کا یہ لقب اس لیے تھا کہ وہ گوشت نہیں کھاتے تھے۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ دور جاہلیت میں وہ بتوں کے لیے ذبح شدہ گوشت نہیں کھاتے تھے۔ مذکورہ حدیث میں گوشت تیار کرنے کے حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عام گوشت کھاتے تھے۔ ممکن ہے مہمانوں یا اہل خانہ کے لیے تیار کروایا ہو۔ مالک سے مراد یہی ہیں۔ (2) ”ثواب دونوں کو ملے گا۔“ البتہ مالک کی اجازت ضروری ہے الا یہ کہ بہت ہی معمولی چیز ہو۔ مالک کو حکم یا رضا مندی کا ثواب اور غلام کو ادائیگی کا ثواب، لیکن ضروری نہیں کہ برابر ہو۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2538
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2536
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2538
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت عمیر مولیٰ آبی اللحم ؓ سے مروی ہے کہ مجھے میرے مالک نے حکم دیا کہ میں کچھ گوشت تیار کروں۔ اتفاقاً ایک مسکین آگیا۔ میں نے کچھ اسے کھلا دیا۔ میرے مالک کو اس کا علم ہوا تو اس نے مجھے مارا۔ میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا (اور شکایت کی)۔ آپ نے اسے بلایا اور فرمایا: ”تو نے اسے کیوں مارا؟“ اس نے کہا: یہ میری اجازت کے بغیر میرا کھانا (فقراء کو) کھلاتا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”(پھر کیا ہوا؟) ثواب تم دونوں کو ملے گا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ”آبی اللحم“ یہ ان کا لقب تھا۔ نام خلف بتایا جاتا ہے۔ اور بھی اقوال ہیں اس کے لفظی معنیٰ ہیں: گوشت کا انکار کرنے والا۔ ان کا یہ لقب اس لیے تھا کہ وہ گوشت نہیں کھاتے تھے۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ دور جاہلیت میں وہ بتوں کے لیے ذبح شدہ گوشت نہیں کھاتے تھے۔ مذکورہ حدیث میں گوشت تیار کرنے کے حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عام گوشت کھاتے تھے۔ ممکن ہے مہمانوں یا اہل خانہ کے لیے تیار کروایا ہو۔ مالک سے مراد یہی ہیں۔ (2) ”ثواب دونوں کو ملے گا۔“ البتہ مالک کی اجازت ضروری ہے الا یہ کہ بہت ہی معمولی چیز ہو۔ مالک کو حکم یا رضا مندی کا ثواب اور غلام کو ادائیگی کا ثواب، لیکن ضروری نہیں کہ برابر ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عمیر مولی آبی اللحم کہتے ہیں کہ میرے مالک نے مجھے گوشت بھوننے کا حکم دیا، اتنے میں ایک مسکین آیا، میں نے اس میں سے تھوڑا سا اسے کھلا دیا، میرے مالک کو اس بات کی خبر ہو گئی تو اس نے مجھے مارا، میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، آپ نے اسے بلوایا اور پوچھا: تم نے اسے کیوں مارا ہے؟ اس نے کہا: یہ میرا کھانا (دوسروں کو) بغیر اس کے کہ میں اسے حکم دوں کھلا دیتا ہے۔ اور دوسری بار راوی نے کہا: بغیر میرے حکم کے کھلا دیتا ہے، تو آپ نے فرمایا: ”اس کا ثواب تم دونوں ہی کو ملے گا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Umair, the freed slave of Abi Al-Lahm, said: “My master commanded me to cut up some meat, then a poor man came so I gave him some. When my master found out about that, he beat me, so I went to the Messenger of Allah (ﷺ) and he came to him and said: ‘Do not beat him.’ He said: ‘He gave away my food without me telling him to.’ He said: ‘The reward will be shared between you both.” (Sahih)