Sunan-nasai:
The Book of Zakah
(Chapter: Meaning Of Al-Miskin (The Poor))
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2574.
حضرت ام بجیدؓ سے روایت ہے۔ اور انھیں رسول اللہﷺ سے بیعت کرنے کا شرف حاصل ہے۔ انھوں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ کبھی کوئی مسکین سائل میرے دروازے پر آ کھڑا ہوتا ہے مگر میرے پاس اسے دینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اگر اسے دینے کے لیے تیرے پاس کچھ بھی نہ ہو سوائے جلے ہوئے کھر کے، تو وہی اسے دے دے۔“
تشریح:
سائل دروازے سے محروم نہیں جانا چاہیے۔ استحقاق اور عدم استحقاق کو تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے الا یہ کہ اس کا پیشہ ور ہونا معلوم ہو اور وہ حقیقتاً محتاج نہ ہو۔ (نیز دیکھیے، حدیث: ۲۵۶۶)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2575
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2573
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2575
تمہید کتاب
زکاۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور برکت کے ہیں۔ شریعت میں زکاۃ سے مراد نصاب کو پہنچے ہوئے مال کا مقررہ حصہ سال گزرنے پر ثواب کی نیت سے فقرائ، مساکین اور دوسرے ضرورت مند افراد کو دینا ہے۔ چونکہ اس فعل سے انسان کے مال میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ آفات سے بچاتا ہے، دنیا میں مال اور آخرت میں ثواب کو بڑھاتا ہے، مال پاک ہو جاتا ہے اور انسان کا نفس بھی رذائل اور دنیا کی محبت سے پاک ہو جاتا ہے، اس لیے اس فعل کو زکاۃ جیسے جامع لفظ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے اور اس کی فرضیت قطعی ہے۔ ویسے تو زکاۃ ہر شرع میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے، مگر اس کے نصاب اور مقدار وغیرہ کا تعین مدنی دور میں 2 ہجری کو کیا گیا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں زکاۃ کو صدقہ بھی کہا گیا ہے۔ اور فرض کے علاوہ نفل کو بھی اسی نام سے ذکر کیا گیا ہے جس طرح صلاۃ، فرض اور نفل دونوں کو کہا جاتا ہے۔ صلاۃ بھی زکاۃ کی طرح ہر دین میں شروع سے رہی ہے۔ اور اسلام میں بھی شروع ہی سے اس کا حکم دیا گیا ہے مگر اس کی فرض مقدار اور ضروری اوقات کا تعین ہجرت کے قریب معراج کی رات ہوا۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں ان دونوں فرائض کو عموماً اکٹھا ہی ذکر کیا گیا ہے۔ ان کا مرتبہ شہادتین کے بعد ہے، البتہ صلاۃ کا درجہ زکاۃ سے مقدم ہے کیونکہ صلاۃ خالص عبادت ہے جبکہ زکاۃ عبادت کے ساتھ ساتھ حقوق العباد میں سے بھی ہے۔
حضرت ام بجیدؓ سے روایت ہے۔ اور انھیں رسول اللہﷺ سے بیعت کرنے کا شرف حاصل ہے۔ انھوں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ کبھی کوئی مسکین سائل میرے دروازے پر آ کھڑا ہوتا ہے مگر میرے پاس اسے دینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”اگر اسے دینے کے لیے تیرے پاس کچھ بھی نہ ہو سوائے جلے ہوئے کھر کے، تو وہی اسے دے دے۔“
حدیث حاشیہ:
سائل دروازے سے محروم نہیں جانا چاہیے۔ استحقاق اور عدم استحقاق کو تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے الا یہ کہ اس کا پیشہ ور ہونا معلوم ہو اور وہ حقیقتاً محتاج نہ ہو۔ (نیز دیکھیے، حدیث: ۲۵۶۶)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ام بجید رضی الله عنہا (جو ان عورتوں میں سے ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی تھی) کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: (کبھی ایسا ہوتا ہے) کہ مسکین میرے دروازے پر آ کھڑا ہوتا ہے، اور میں اسے دینے کے لیے کوئی چیز موجود نہیں پاتی؟ آپ نے فرمایا: ”اگر تم اسے دینے کے لیے صرف جلی ہوئی کھر ہی پاؤ تو اسے وہی دے دو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from ‘Abdur Rahman bin Bujaid that his grandmother Umm Bujaid — who was one of those who gave the oath of allegiance to the Messenger of Allah (ﷺ) - said to the Messenger of Allah (ﷺ): “The poor man stands at my door, and I cannot find anything to give him.” The Messenger of Allah (ﷺ) said to her: “If you cannot find anything to give to him except a sheep’s burned foot, then give it to him.” (Sahih)