باب: مستحب یہ ہے کہ آدمی کی طرف سے اس کا بڑا بیٹا حج کرے
)
Sunan-nasai:
The Book of Hajj
(Chapter: It Is Recommended for the Oldest of a Man's Sons to Perform Hajj on His Behalf)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2644.
حضرت ابن زبیر ؓ سے منقول ہے، نبی ﷺ نے ایک آدمی سے فرمایا: ”تو اپنے والد کا سب سے بڑا بیٹا ہے، لہٰذا تو اس کی طرف سے حج کر۔“
تشریح:
(1) حدیث میں مذکور مسئلے کی وضاحت حدیث: ۲۶۳۹ کے فوائد میں گزر چکی ہے۔ وہاں ملاحظہ فرمائیے۔ (2) گزشتہ تیرہ روایات جو حج بدل کے بارے میں ہیں، ان میں کسی جگہ سائل مرد ہے کہیں عورت۔ بعض روایات میں زندہ کے بارے میں سوال ہے، بعض میں میت کے بارے میں۔ کسی روایت میں باپ کا ذکر ہے، کسی میں ماں کا اور کسی میں بہن کا، تاہم جن روایات میں شذوذ تھا اس کی وضاحت کر دی گئی ہے۔ بنا بریں یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں کیونکہ ایک ہی مسئلہ کئی اشخاص کو پیش آسکتا ہے۔ خصوصاً، اس لیے کہ حجۃ الوداع میں تمام علاقوں کے لوگ موجود تھے۔ فرضیت کے بعد عملاً یہ پہلا حج تھا۔ عموماً لوگ حج کے مسائل سے واقف نہ تھے، لہٰذا بہت سے لوگوں نے اپنے اپنے حالات کے مطابق سوالات کیے، اس لیے سب روایات اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔ کوئی اشکال نہیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2645
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2643
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
2645
تمہید کتاب
حج ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے۔ ان ارکان کے چھوڑنے سے کفر واسلام میں امتیاز ختم ہو جاتا ہے۔ حج کے لغوی معنی قصد کرنا ہیں مگر شریعت اسلامیہ میں اس سے مراد چند معین ایام میں مخصوص طریقے اور اعمال کے ساتھ بیت اللہ کی زیارت کرنا ہے۔ حج کا مقصد بیت اللہ کی تعظیم ہے جو کہ مسلمانوں کا مرکز اور ان کی وحدت کا ضامن ہے۔ اس کی طرف تمام مسلمان قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔ حج میں مسلمانوں کا عظیم اجتماع ہوتا ہے۔ جس کی نظیر پیش کرنے سے تمام ادیان ومذاہب قاصر ہیں۔ اس سے مسلمانوں میں باہمی ربط وتعاون، آپس میں تعارف و الفت اور محبت و مودت کے جذبات ترقی پاتے ہیں۔ ہر علاقہ وملک کے لوگ، ہر رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے جن کی زبانیں مختلف ہوتی ہیں مگر دلی جذبات ایک سے ہوتے ہیں، ان کی بود وباش مختلف، مگر ان کی زبان پر ایک ہی ترانہ ہوتا ہے۔ حج کے ارکان کی ادائیگی کے وقت ان کا لباس بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ نہ دنگا فساد، نہ لڑائی جھگڑا، نہ گالم گلوچ۔ حج زندگی میں ایک دفعہ فرض ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرضیت حج کے بعد ایک ہی حج ادا فرمایا تھا۔ حج کی ادائیگی میں حضرت ابراہیمؑ، ان کی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل ؑکی یاد تازہ ہوتی ہے جو سب سے پہلے اس عبادت کو ادا کرنے والے تھے۔ بیت اللہ بھی انھی دو عظیم شخصیات کا تعمیر کردہ ہے۔ حج کا اعلان بھی حضرت ابراہیم ؑ کی زبانی ہوا۔ حج خلوص، للہیت، قربانی، صبر اور مسلمانوں کی شان وشوکت کا عظيم مظہر ہے جس کی مثال ناپید ہے۔
حضرت ابن زبیر ؓ سے منقول ہے، نبی ﷺ نے ایک آدمی سے فرمایا: ”تو اپنے والد کا سب سے بڑا بیٹا ہے، لہٰذا تو اس کی طرف سے حج کر۔“
حدیث حاشیہ:
(1) حدیث میں مذکور مسئلے کی وضاحت حدیث: ۲۶۳۹ کے فوائد میں گزر چکی ہے۔ وہاں ملاحظہ فرمائیے۔ (2) گزشتہ تیرہ روایات جو حج بدل کے بارے میں ہیں، ان میں کسی جگہ سائل مرد ہے کہیں عورت۔ بعض روایات میں زندہ کے بارے میں سوال ہے، بعض میں میت کے بارے میں۔ کسی روایت میں باپ کا ذکر ہے، کسی میں ماں کا اور کسی میں بہن کا، تاہم جن روایات میں شذوذ تھا اس کی وضاحت کر دی گئی ہے۔ بنا بریں یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں کیونکہ ایک ہی مسئلہ کئی اشخاص کو پیش آسکتا ہے۔ خصوصاً، اس لیے کہ حجۃ الوداع میں تمام علاقوں کے لوگ موجود تھے۔ فرضیت کے بعد عملاً یہ پہلا حج تھا۔ عموماً لوگ حج کے مسائل سے واقف نہ تھے، لہٰذا بہت سے لوگوں نے اپنے اپنے حالات کے مطابق سوالات کیے، اس لیے سب روایات اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔ کوئی اشکال نہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا: ”تم اپنے باپ کا بڑے بیٹے ہو تو تم ان کی طرف سے حج کرو۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Ibn Az Zubair that the Prophet (ﷺ) said to a man: “You are the oldest son of your father, so perform Hajj on his behalf.” (Da’if)