باب: اگر بیوی کا خاوند یا لونڈی کا مالک بچے کی نفی نہ کرے تو بچہ (قانونی طور پر) اسی کا ہوگا
)
Sunan-nasai:
The Book of Divorce
(Chapter: Attributing The Child To The Bed If The Owner Of The Bed Does Not Disown Him)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3482.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ”بچہ فراش کے مالک کا ہوگا اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔“
تشریح:
(1) شادی شدہ عورت سے جو بچہ پیدا ہو‘ وہ خاوند ہی سے مقصود ہوگا۔ اسی طرح لونڈی سے جوبچہ پیدا ہو‘ وہ اس کے مالک ہی کا متصور ہوگا جب تک خاوند یا مالک نفی نہ کرے‘ خواہ اس بچے کے ناجائز ہونے کا کوئی امکانی ثبوت بھی ہو کیونکہ بچے کے جائز یا ناجائز ہونے کا مسئلہ مخفی ہوتا ہے اور اس کی تہہ تک پہنچنا مشکل امر ہے۔ (2) ”پتھر“ یعنی زانی کو حد لگے گی۔ جس کی ایک صورت پتھر ہیں۔ یہ محاورہ بھی ہوسکتا ہے‘ یعنی زانی کے لیے ناکامی ہے۔ زنا سے نسب ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ نسب تو پاکیزہ چیز ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3484
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
3482
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
3512
تمہید کتاب
طلاق کا عقد نکاح کی ضد ہے ۔عقد کے معنی ہیں گرہ دینا اور طلاق کے معنی ہیں گرہ کھول دینا۔اسی لحاظ سے نکاح کی مشروعیت کے ساتھ ساتھ طلاق کی مشروعیت بھی ضروری تھی کیونکہ بسا اوقات نکاح موافق نہیں رہتا بلکہ مضر بن جاتا ہے تو پھر طلاق ہی اس کا علاج ہے ۔البتہ بلا وجہ طلاق دینا گناہ ہے ۔اس کے بغیر گزارہ ہو سکے تو کرنا چاہیے یہ آخری چارۂ کار ہے طلاق ضرورت کے مطابق مشروع ہے جہاں ایک طلاق سے ضرورت پوری ہوتی ہو وہاں ایک سے زائد منع ہیں چونکہ طلاق بذات خود کوئی اچھا فعل نہیں ہے اس لیے شریعت نے طلاق کے بعد بھی کچھ مدت رکھی ہے کہ اگر کوئی جلد بازی یا جذبات یا مجبوری میں طلاق دے بیٹھے تو وہ اس کے دوران رجوع کر سکتا ہے اس مدت کو عدت کہتے ہیں البتہ وہ طلاق شمار ہوگی شریعت ایک طلاق سے نکاح ختم نہیں کرتی بشرطیکہ عدت کے دوران رجوع ہو جائے بلکہ تیسری طلاق سے نکاح ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد رجوع یا نکاح کی گنجائش نہیں رہتی یاد رہے کہ طلاق اور رجوع خالص مرد کا حق ہے ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ”بچہ فراش کے مالک کا ہوگا اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
(1) شادی شدہ عورت سے جو بچہ پیدا ہو‘ وہ خاوند ہی سے مقصود ہوگا۔ اسی طرح لونڈی سے جوبچہ پیدا ہو‘ وہ اس کے مالک ہی کا متصور ہوگا جب تک خاوند یا مالک نفی نہ کرے‘ خواہ اس بچے کے ناجائز ہونے کا کوئی امکانی ثبوت بھی ہو کیونکہ بچے کے جائز یا ناجائز ہونے کا مسئلہ مخفی ہوتا ہے اور اس کی تہہ تک پہنچنا مشکل امر ہے۔ (2) ”پتھر“ یعنی زانی کو حد لگے گی۔ جس کی ایک صورت پتھر ہیں۔ یہ محاورہ بھی ہوسکتا ہے‘ یعنی زانی کے لیے ناکامی ہے۔ زنا سے نسب ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ نسب تو پاکیزہ چیز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”بچہ فراش والے کا ہے (یعنی جس کی بیوی ہو اس کا مانا جائے گا) اور زنا کار کے لیے پتھر ہے۔“۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی زنا کار اگر کہتا ہے کہ یہ بچہ ہمارے نطفہ کا ہے تو وہ پتھر کا مستحق ہے۔ اور اگر زنا کار شادی شدہ ہے تو ضابطے و قانون شریعت کے مطابق اسے پتھروں سے رجم کر دیا جائے گا، یعنی اس کے لیے بالکل یہ محرومی ہو گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Abu Hurairah (RA) that the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "The child is the bed's and for the fornicator is the stone.