باب: مزارعت (بٹائی) کے بارے میں منقول الفاظ کے اختلاف کا بیان
)
Sunan-nasai:
The Book of Agriculture
(Chapter: Mentioning The Different Wordings With Regard To Sharecropping)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3928.
حضرت محمد بن سیرین فرماتے تھے کہ میرے نزدیک زمین مضاربت کے مال کی طرح ہے۔ جو کچھ مالِ مضاربت میں درست ہے‘ وہ زمین میں بھی درست ہے اور جو مال مضاربت میں درست نہیں‘ وہ زمین میں بھی درست نہیں۔ اور وہ اس بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ زمین مزارع کے سپرد کردے اور وہ (مزارع) اس میں خود یا اپنی اولاد اور اپنے ساتھیوں اور اپنے بیلوں وغیرہ کے ساتھ کام کرے اور خرچ کچھ نہ کرے بلکہ اخراجات سب کے سب مالک زمین کی طرف سے ہوں۔
تشریح:
حضرت ابن سیرین رحمہ اللہ کا مزارعت (بٹائی) کو مضاربت پر قیاس کرنا بالکل صحیح ہے۔ دونوں میں کوئی فریق نہیں۔ مضاربت میں ایک شخص دوسرے کو رقم حوالے کرتا ہے کہ اس کے ساتھ تجارت کرو۔ وقت مقررہ کے بعد اس کا نفع فلاں نسبت سے تقسیم کرلیں گے اور مزارعت میں ایک شخص اپنی زمین دوسرے کے سپرد کرتا ہے کہ اس میں کاشت کاری کرو۔ پیداوار کو فلاں نسبت سے تقسیم کرلیں گے۔ اصل رقم اور زمین مالکوں کو واپس مل جاتی ہے۔ دونوں میں سرمو فرق نہیں‘ البتہ حضرات ابن سیرین کا یہ فرمانا کہ ”مزارع صرف کام کرے‘ اخراجات سب کے سب مالک زمین کے ذمہ ہو“ ضروری نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ایسی شرط صراحتاً مذکور نہیں‘ لہٰذا فریقین جو بھی طے کرلیں‘ جائز ہونا چاہیے‘ البتہ کسی پر ظلم نہ ہو۔ (دیکھیے سابقہ حدیث)
حضرت محمد بن سیرین فرماتے تھے کہ میرے نزدیک زمین مضاربت کے مال کی طرح ہے۔ جو کچھ مالِ مضاربت میں درست ہے‘ وہ زمین میں بھی درست ہے اور جو مال مضاربت میں درست نہیں‘ وہ زمین میں بھی درست نہیں۔ اور وہ اس بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ زمین مزارع کے سپرد کردے اور وہ (مزارع) اس میں خود یا اپنی اولاد اور اپنے ساتھیوں اور اپنے بیلوں وغیرہ کے ساتھ کام کرے اور خرچ کچھ نہ کرے بلکہ اخراجات سب کے سب مالک زمین کی طرف سے ہوں۔
حدیث حاشیہ:
حضرت ابن سیرین رحمہ اللہ کا مزارعت (بٹائی) کو مضاربت پر قیاس کرنا بالکل صحیح ہے۔ دونوں میں کوئی فریق نہیں۔ مضاربت میں ایک شخص دوسرے کو رقم حوالے کرتا ہے کہ اس کے ساتھ تجارت کرو۔ وقت مقررہ کے بعد اس کا نفع فلاں نسبت سے تقسیم کرلیں گے اور مزارعت میں ایک شخص اپنی زمین دوسرے کے سپرد کرتا ہے کہ اس میں کاشت کاری کرو۔ پیداوار کو فلاں نسبت سے تقسیم کرلیں گے۔ اصل رقم اور زمین مالکوں کو واپس مل جاتی ہے۔ دونوں میں سرمو فرق نہیں‘ البتہ حضرات ابن سیرین کا یہ فرمانا کہ ”مزارع صرف کام کرے‘ اخراجات سب کے سب مالک زمین کے ذمہ ہو“ ضروری نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ایسی شرط صراحتاً مذکور نہیں‘ لہٰذا فریقین جو بھی طے کرلیں‘ جائز ہونا چاہیے‘ البتہ کسی پر ظلم نہ ہو۔ (دیکھیے سابقہ حدیث)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابن عون کہتے ہیں کہ محمد (محمد بن سیرین) کہا کرتے تھے: میرے نزدیک زمین مضاربت کے مال کی طرح ہے، تو جو کچھ مضاربت کے مال میں درست ہے، وہ زمین میں بھی درست ہے، اور جو مضاربت کے مال میں درست نہیں، وہ زمین میں بھی درست نہیں، وہ اس بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ وہ اپنی زمین کاشتکار کے حوالے کر دیں اس شرط پر کہ وہ (کاشتکار) خود اپنے آپ، اس کے لڑکے، اس کے دوسرے معاونین اور گائے بیل اس میں کام کریں گے اور وہ اس میں کچھ بھی خرچ نہیں کرے گا بلکہ تمام مصارف زمین کے مالک کی طرف سے ہوں گے. ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : بٹائی کی یہ ایک جائز صورت ہے، واجب نہیں بلکہ یہ بھی جائز ہے کہ زمین کا مالک کچھ بھی خرچ نہ کرے، تمام اخراجات کاشتکار کرے اور آدھی پیداوار کا حقدار ہو جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn 'Awn said: "Muhammad used to say: 'In my view land is like the wealth put into a Mudarabah (limited partnership) contract. Whatever is valid with regard to the wealth put into a Mudarabah partnership, is valid with regard to land, and whatever is not valid with regard to the wealth put into a Mudarabah partnership, then it is not valid with regard to land.'" He said: "He did not see anything wrong with giving all of his land to the plowman on the basis that he would work with it himself, or with his children, and helpers, and oxen, and, that he would not spend anything on it; all expenses were to be paid by the owner of the land.