Sunan-nasai:
The Book of Distribution of Al-Fay'
(Chapter: The Book Of The Distribution Of Al-Fay')
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4143.
حضرت قیس بن مسلم سے روایت ہے کہ میں نے حضرت حسن بن محمد سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ﴾ ”جان لو کہ تم جو بھی غنیمت حاصل کرو، اس کا خمس اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔“ کے (مفہوم کے) بارے میں پوچھا۔ انہوں نے فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کا آغاز کلام کا انداز ہے ورنہ دنیا اور آخرت سب اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں، البتہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد آپ اور قرابت داروں کے دو حصوں میں لوگوں نے اختلاف کیا۔ بعض نے کہا کہ آپ کے بعد آپ کا حصہ خلیفہ اور حاکم وقت کے لیے ہو گا۔ اسی طرح بعض نے کہا کہ رشتے داروں کا حصہ اب بھی رسول اللہ ﷺ کے اہل بیت کے لیے ہے۔ اور بعض نے کہا: اب رشتے داروں کا حصہ خلیفۂ وقت کے رشتے داروں کے لیے ہو گا، پھر بالآخر انہوں نے اس بات پر اتفاق کر لیا کہ یہ دونوں حصے جہاد کے لیے گھوڑے اور اسلحہ خریدنے میں خرچ کیے جائیں، چنانچہ حضرات ابوبکر و عمر ؓ کے دور خلافت میں یہ دونوں حصے اسی مصرف میں خرچ ہوتے رہے۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ کا جو حصہ تھا، آپ کے بعد اس کے حق دار خلیفۂ بلافصل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ اور صدیق اکبر کے بعد خلیفۂ ثانی امیر المومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے لیکن ان دونوں محترم بزرگوں نے ہرگز وہ حصہ نہ لیا۔ یہ حدیث ان کی حقانیت اور بے نیازی و غناء کی بہت بڑی دلیل ہے۔ (2) جیسا کہ پہلے بھی پیچھے گزر چکا ہے کہ خمس دراصل بیت المال کا ہے۔ اس میں کسی کا کوئی حصہ مقرر نہیں۔ جہاں ضرورت ہو خرچ کیا جائے، مثلاً: حاکم وقت اور دیگر ملازمین کی تنخواہ، ضرورت مند اور محتاج حضرات کے وظائف، جہاد کی تیاری اور مسلمانوں کی بہبود کے دوسرے کام۔ رسول اللہ ﷺ نے خمس میں جو تصرف فرمایا، وہ اللہ کے حکم کے مطابق فرمایا اور یہی رسول کی ذمہ داری ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے فوائد، حدیث: ۴۱۳۸)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4154
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4154
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4148
تمہید کتاب
مسلمانوں کو کافروں سے جو مال ملتا ہے، اسے مال غنیمت کہتے ہیں، خواہ وہ مال جنگ کے دوران میں حاصل ہو یا بعد میں یا کسی بھی طریقے سے، البتہ عربی میں مال غنیمت کے حصول کے مختلف طریقوں کے مختلف نام ہیں، مثلاً: جنگ کے دوران میں جو مال کفار سے حاصل ہو، خواہ وہ اسلحہ ہو یا مال و دولت، بھیڑ بکریاں اور اونٹ ہوں یا مرد و عورتیں، اس کو مال غنیمت کہتے ہیں۔ اور اگر لڑائی کے بغیر کوئی مال حاصل ہو، مثلاً: صلح کے نتیجے میں یا کسی معاہدے کے نتیجے میں یا ان کی کوئی چیز ویسے مسلمانوں کے قابو میں آ جائے، اسے مال فے کہتے ہیں۔ فے مکمل طور پر بیت المال کا حق ہوتا ہے۔ اس میں کسی کا کوئی حق نہیں ہوتا، البتہ لڑائی کے دوران یا نتیجے میں حاصل ہونے والی غنیمت میں سے اگر امام چاہے تو فوجیوں کو حصے دے سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں اور مابعد ادوار میں مال غنیمت سے خمس بیت المال میں رکھا جاتا تھا، باقی لڑنے والوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ کبھی آپ یہ خمس بھی نہیں لیتے تھے اور اعلان فرما دیتے تھے کہ جو شخص کسی کو قتل کرے، اس کا سامان وہ خود ہی لے سکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مال غنیمت دراصل بیت المال کا حق ہے، البتہ لڑنے والوں کو امام وقت کے تقاضے کے مطابق کچھ دے سکتا ہے۔ اس کا معین حق نہیں۔ اسی طرح جنگ کے دوران میں اگر کسی علاقے پر قبضہ ہو تو زمین بھی بیت المال کی ہو گی، البتہ امام مناسب سمجھے تو فوجیوں کو ضرورت کے مطابق زمین بھی تقسیم کر سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خیبر فتح کیا تو اس کی زرخیز زمین فوجیوں میں تقسیم فرما دی، مگر باقی علاقے فتح کیے تو زمین تقسیم نہ فرمائی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زمین تقسیم کرنے سے انکار کر دیا کہ اس طرح تو کچھ لوگ بڑے بڑے جاگیردار بن جائیں گے جبکہ بعد والے ایک انچ سے بھی محروم رہیں گے۔ گویا مال غنیمت کے بارے میں حاکم مختار ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں چونکہ مجاہدین کی تنخواہیں مقرر نہیں تھیں، اس لیے ان کو غنیمت سے حصہ دیا جاتا تھا، بعد میں باقاعدہ فوج تشکیل دی گئی اور تنخواہیں مقرر ہو گئیں جیسا کہ آج کل ہے۔ تو اب فوجیوں کو مال غنیمت سے حصہ دینے کی ضرورت نہیں، ہاں حاکم مناسب سمجھے تو ان کو انعامات وغیرہ دے سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا مجاہدین کو حصہ دینا شرعی مسئلہ نہیں بلکہ انتظامی مسئلہ تھا۔ اور انتظامی مسائل میں ہر حکومت تبدیلی کا اختیار رکھتی ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مندرجہ بالا طرز عمل سے پتا چلتا ہے۔ باقی رہی قرآن مجید کی آیت: { وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ} (الانفال۸:۴۱) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جمیع غنیمت مجاہدین کا حق نہیں بلکہ اس میں سے بیت المال کا بھی حق ہے۔ جو خمس سے زائد حتی کہ کل بھی ہو سکتا ہے کیونکہ آیت میں خمس سے زائد کی نفی نہیں، نیز آیت میں باقی مال کو مجاہدین کا حق نہیں بتلایا گیا کہ اس میں کمی بیشی نہ ہو سکے بلکہ خمس کے علاوہ باقی مال غنیمت کے بارے میں خاموشی اختیار فرمائی گئی ہے۔ گویا وہ حکومت وقت کی صوابدید کے مطابق تقسیم ہو گا۔ حکومت چاہے تو اسے مجاہدین میں تقسیم کرے، چاہے تو اسے بیت المال میں داخل کر دے۔عبادات کے علاوہ دین میں جمود نہیں کہ اس میں سرمو تبدیلی نہ ہو سکے، خصوصاً انتظامی و معاشی مسائل میں جو بدلتے رہتے ہیں۔ ایسے معاملات میں حالات و ظروف کا لحاظ نہ رکھنا دین کی حقیقی روح سے بیگانہ ہو جانے والی بات ہے۔ شریعت کا مقصد لوگوں کے مسائل مناسب طریقے سے حل کرنا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر دور کے مناسبات مختلف ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی انداز فکر ہی کو اجتہاد کہا جاتا ہے جس کے قیامت تک جاری اور جائز رہنے کے محققین قائل ہیں۔ و اللہ اعلم
حضرت قیس بن مسلم سے روایت ہے کہ میں نے حضرت حسن بن محمد سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ﴾ ”جان لو کہ تم جو بھی غنیمت حاصل کرو، اس کا خمس اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔“ کے (مفہوم کے) بارے میں پوچھا۔ انہوں نے فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کا آغاز کلام کا انداز ہے ورنہ دنیا اور آخرت سب اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں، البتہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد آپ اور قرابت داروں کے دو حصوں میں لوگوں نے اختلاف کیا۔ بعض نے کہا کہ آپ کے بعد آپ کا حصہ خلیفہ اور حاکم وقت کے لیے ہو گا۔ اسی طرح بعض نے کہا کہ رشتے داروں کا حصہ اب بھی رسول اللہ ﷺ کے اہل بیت کے لیے ہے۔ اور بعض نے کہا: اب رشتے داروں کا حصہ خلیفۂ وقت کے رشتے داروں کے لیے ہو گا، پھر بالآخر انہوں نے اس بات پر اتفاق کر لیا کہ یہ دونوں حصے جہاد کے لیے گھوڑے اور اسلحہ خریدنے میں خرچ کیے جائیں، چنانچہ حضرات ابوبکر و عمر ؓ کے دور خلافت میں یہ دونوں حصے اسی مصرف میں خرچ ہوتے رہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ کا جو حصہ تھا، آپ کے بعد اس کے حق دار خلیفۂ بلافصل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ اور صدیق اکبر کے بعد خلیفۂ ثانی امیر المومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے لیکن ان دونوں محترم بزرگوں نے ہرگز وہ حصہ نہ لیا۔ یہ حدیث ان کی حقانیت اور بے نیازی و غناء کی بہت بڑی دلیل ہے۔ (2) جیسا کہ پہلے بھی پیچھے گزر چکا ہے کہ خمس دراصل بیت المال کا ہے۔ اس میں کسی کا کوئی حصہ مقرر نہیں۔ جہاں ضرورت ہو خرچ کیا جائے، مثلاً: حاکم وقت اور دیگر ملازمین کی تنخواہ، ضرورت مند اور محتاج حضرات کے وظائف، جہاد کی تیاری اور مسلمانوں کی بہبود کے دوسرے کام۔ رسول اللہ ﷺ نے خمس میں جو تصرف فرمایا، وہ اللہ کے حکم کے مطابق فرمایا اور یہی رسول کی ذمہ داری ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے فوائد، حدیث: ۴۱۳۸)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
قیس بن مسلم کہتے ہیں کہ میں نے حسن بن محمد سے آیت کریمہ: «وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ» کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ تو اللہ سے کلام کی ابتداء ہے جیسے کہا جاتا ہے”دنیا اور آخرت اللہ کے لیے ہے“، انہوں نے کہا: ان دونوں حصوں”یعنی رسول اور ذی القربی کے حصہ“ میں رسول اللہ ﷺ کی موت کے بعد لوگوں میں اختلاف ہوا، تو کہنے والوں میں سے کسی نے کہا کہ رسول کا حصہ ان کے بعد خلیفہ کا ہو گا، ایک جماعت نے کہا کہ ذی القربی کا حصہ رسول اللہ ﷺ کے رشتہ داروں کا ہو گا، دوسروں نے کہا: ذی القربی کا حصہ خلیفہ کے رشتہ داروں کا ہو گا۔ بالآخر ان کی رائیں اس پر متفق ہو گئیں کہ ان لوگوں نے ان دونوں حصوں کو گھوڑوں اور جہاد کی تیاری کے لیے طے کر دیا، یہ دونوں حصے ابوبکر اور عمر ؓ کی خلافت کے زمانہ میں اسی کام کے لیے رہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Qais bin Muslim said: " Iasked Al-Hasan bin Muhammad about the saying of Allah, the Might and Sublime: 'and know that whatever of spoils of war that you may gain, verily, one-fifth of it is assigned to Allah. He said: 'This is the key to the Speech of Allah. This world and the Hereafter belling to Allah. He said: 'They differed concerning these two shares after the death of the Messenger of Allah, the share of the Messenger and the share of the near relatives (of the Messenger of Allah). Some said that the share of the near relatives was for the relatives of the Messenger, and some said that the share of the near relatives was for the relatives of the Khalifah. Then they agreed that these two shares should be spent on horses and equipment in the cause of Allah, and they were allocated for this purpose during the Khalifah of Abu Bakr and' Umar (RA).