Sunan-nasai:
The Book of Salah
(Chapter: Being Brought To Account For The Salah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
465.
حضرت حریث بن قبیصہ ؓ نے فرمایا کہ میں مدینہ آیا تو میں نے دعا کی: اے اللہ! مجھے کوئی نیک ہم نشین میسر فرما۔ پھر حضرت ابوہریرہ ؓ کی ہم نشینی میسر ہوئی۔ میں نے ان سے کہا: میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ مجھے نیک ہم نشین میسر فرما، لہٰذا آپ مجھے کوئی ایسی حدیث بیان فرمائیں جو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو۔ امید ہے اللہ تعالیٰ مجھے اس سے فائدہ پہنچائے گا۔ آپ نے بیان کیا: میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے سنا: ”سب سے پہلے بندے سے نماز کا حساب لیا جائے گا۔ اگر وہ درست ہوئی تو وہ کامیاب و کامران ہوگیا۔ اور اگر وہ خراب ہوئی تو وہ ناکام رہا اور خسارے میں گیا۔“ ہمام کہتے ہیں: مجھے معلوم نہیں کہ یہ الفاظ قتادہ کے ہیں یا روایت( حدیث) کے ہیں۔ ”اگر اس کے فرضوں میں کچھ کمی ہوئی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: (اے فرشتو!) دیکھو، کیا میرے بندے کے پاس کچھ نفل ہیں؟ تو ان کے ساتھ اس کے فرضوں کی کمی پوری کی جائے گی۔ پھر باقی اعمال میں بھی اسی طرح (حساب) ہوگا۔“ حضرت ابوعوام نے سند میں حضرت ہمام کی مخالفت کی ہے۔
تشریح:
(1)ابوعوام اور ہمام دونون حضرت قتادہ کے شاگرد ہیں۔ دونوں سند کے بیان کرنے میں مختلف ہیں جیسا کہ اس حدیث اور اگلی حدیث کی سندیں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے۔ حضرت ہمام کی سند میں حضرت حسن کے استاد حریث بن قبیصہ ہیں جب کہ ابوعوام کی سند میں حسن کے استاد ابورافع ہیں۔ (2)معلوم ہوا کہ نوافل اور سنن کی ادائیگی میں قطعاً سستی نہیں کرنی چاہیے تاکہ فرائض کی تکمیل اور رفع درجات کا فائدہ حاصل ہو۔ کون ہے جو فرائض کی صحیح ادائیگی کا دعویٰ کرسکے؟
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
465
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
464
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
466
تمہید کتاب
امام نسائی طہارت اور اس سے متعلق دیگر احکام و مسائل بیان کرنے کے بعد ایسی عبادت سے متعلق احکام و مسائل بیان کرنا چاہتے ہیں کہ جس سے پہلے طہارت شرط ہے اور وہ عبادت نماز ہے جس کی بابت احادیث میں مروی ہے کہ دین اسلام میں شہادتین کے اقرار کے بعد نماز دین کا اہم ترین رکن ہے اور حقوق اللہ میں سے اسی کا سب سے پہلے حساب ہوگا ذیل میں اسی عبادت کی لغوی و اصطلاحی تعریف اور اس کی فرضیت و اہمیت کی احادیث کی روشنی میں واضح کیا گیا ہے تاکہ قارئین احکام و مسائل جاننے اور پڑھنے سے قبل اس کی اہمیت اور فضیلت بھی جان لیں ۔صلاة (نماز) کے لغوی معنی’’ دعا‘‘ پر مشتمل ہے اس لیے اسے اس نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔(سبل السلام:1/193) شرعی اصطلاح میں نماز چند اقوال و افعال کا نام ہے جن کا آغاز چند مخصوص شرائط کے ساتھ تکبیر تحریمہ سے ہوتا ہے اور اختتام سلام پر ۔دیکھیے: الفقه على المذاهب الأربعة ،ص:103،طبع جديد دارابن الهيثم)توحید و رسالت کے اقرار کے بعد ایک بالغ مسلمان مرد و عورت پانچ وقت اقامت صلاۃ کا پابند ہے ‘نیز نماز ارکان خمسہ میں سے اسلام کا دوسرا اہم رکن ہے لہذا جو شخص جانتے بوجھتے اس کی فرضیت کا منکر ہو‘وہ بالاتفاق دائرہ اسلام سے خارج ہوگا نماز مومن کی ایک اہم پہچان ہے یہ برائی اور بے ۔حیائی سے روکتی ہے اس کی مداومت و محافظت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فلاح و فوز کا وعدہ ہے بلوغت سے تا دم حیات انسان اس کا پابند ہے عذر کی صورت میں کیفیت ادا میں تو اس کی تخفیف ہے لیکن معافی قطعاً نہیں اس کا مقصد اعظم تو یاد الٰہی ہے لیکن عاجزی دور ماندگی کے اظہار کے لیے اللہ کے سامنے یہ ایک عمدہ صورت ہے یہ نفس کا سکون اورروح کی غذا ہے ہم و غم اور دکھ درد کا کامیاب علاج ہے مردن دلوں کی مایوسی اور ویرانی کے لیے آب حیات ہے راہ راست رب العالیمن سے مناجات کا ذریعہ ارو مومن کی معراج ہے بے صبری میں نسخۂ کیمیا اور مومن کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔[جعلت قرة عيني فى الصلاةِ] بہر حال قرآن کریم کی بیسیوں آیات میں نماز کا حکم اس کی اہمیت کے لیے کافی ہے علاوہ ازیں احادیث میں اس کے احکام و اوامر اس کی اہمیت و وقعت کو چار چاند لگا دیتے ہیں لہذا تارک الصلاۃ یا اس کے حق میں سستی برتنے والے کے لیے بالکل گنجائش کا کوئی راستہ نہیں نکلتا یاد رہے نماز کی ادائیگی کے لیے ’’ اقامت‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو اپنے اندر وسیع تر مفہوم رکھتا ہے اور وہ یہ ہے کہ نماز اپنی حدودوقیود ‘فرائض و واجبات ‘شرائط اور مسنون طریقے کے مطابق ادا کی جائے تب مذکورہ بالا فوائد کا حصول ممکن اور اقامت صلاۃ کا اہتمام ہو سکتا ہے وگرنہ مرضی یا وقت گزاری کی نماز عنداللہ شرف قبولیت حاصل نہیں کر سکتی۔آپﷺ کا فرمان ہے ۔[خَمْسُ صَلَوَاتٍ افْتَرَضَهُنَّ اللَّهُ تَعَالَى مَنْ أَحْسَنَ وُضُوءَهُنَّ وَصَلَّاهُنَّ لِوَقْتِهِنَّ وَأَتَمَّ رُكُوعَهُنَّ وَخُشُوعَهُنَّ كَانَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ، وَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَلَيْسَ لَهُ عَلَى اللَّهِ عَهْدٌ، إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ وَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ]’’جس شخص نے عمد طریقے سے ان (نمازوں) کا وضو کیا ‘ بروقت ان کی ادائیگی کی اور ان کے رکوع اور خشوع کو مکمل طور پر بجا لایا تو اس کے حق میں اللہ کا وعدہ اور ذمہ ہے کہ وہ اسے بخش دے گا ۔ اور جس نے (اس طرح) بجا آوری نہ کی تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی ذمہ نہیں ‘چاہے تو اسے بخش اور چاہے تو اسے عذاب دے۔‘‘(وانظر صحيح سنن أبي داود (مفصل) للالبانى ،حديث :452)نماز کی اہمیت وفضیلت سے متعلق کچھ دیگر احادیث بطور دیل و حجت کے حاضر خدمت ہیں:حضرت ابوہریرہ ٰ سے مروی حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے پوچھا:” مجھے بتاؤ اگر تم میں سے کسی ایک کےگھر کے سامنے نہر بہہ رہی ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ مرتب نہاۓ کیا اس کے بدن پر میل کچیل باقی رہ جائے گا؟‘‘ صحابہ کرام نے جواب دیا: نہیں۔ تب آپ ﷺنے فرمایا: ’پانچ نمازوں کی مثال ایسے ہی ہے۔ اللہ تعالی ان کی وجہ سے خطاؤں کو مٹا دیتا ہے۔ (صحیح البخاري، مواقيت الصلاة)حديث:۵۲۸، وصحيح مسلم المساجد حديث:۲۹۷) نیز حضرت عبداللہ بن مسعود سے منقول ہے رسول ﷺ نے فرمایا: (گناہوں کی وجہ سے) تم جلتے ہو جھلستے ہو۔ جب تم صبح کی نماز پڑھتے ہو تو یہ گناہوں کو دھو ڈالتی ہے پھر تم جھلستے ہی رہتے ہو یہاں تک کہ ظہر کی نماز پڑھتے ہو تو یہ خطاؤں کو دھو ڈالتی ہے۔ پھر تم ( گناہوں کی وجہ سے )آگ میں جلتے جھلتے ہو اور جب صبح کی نماز پڑتے ہو تو یہ گناہوں کو دھوڈالتی ہے عصر کی نماز پڑھ لیتے ہو تو یہ انھیں دھو دیتی ہے۔ پھر (خطاؤں کی تپش سے )جلتے ہو حتی کہ تم عشاء کی نماز پڑھتے ہو تو یہ نماز ان (گناہوں) کو دھو ڈالتی ہے پھر تم سو جاتے ہو تمہارا کچھ بھی نہیں لکھا جاتا یہاں تک کہ تم بیدار ہو جاؤ(المعجم الكبير للطبرانى ،حديث:8739 موقوفا والاوسط له،ٍحديث:2224- وصحيح الترغيب والترهيب،حديث :357) نيز حضرت انس بن مالك سے مروی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ کا ایک فرشتہ ہر نماز کے وقت منادی کرتا ہے اے بنی نوع انسان! تم نے جو آگ بھڑکائی ہے اسے بجھانے کے لیے اٹھو یعنی نماز پر پر‘‘ (المعجم الاوسط للطبرانى ،حديث 9452 وانظر صحيح الترغيب والترهيب، حديث :358)اسی طرح آپ کا فرمان ہے کہ جب بندۂ مسلمان نماز پڑھتا ہے تو اس کی خطائیں اس کے سر پر بلند ہوتی ہیں جب بھی وہ سجدہ کرتا ہے تو اس سے گرتی جاتی ہیں بالآخرجب وہ نماز سے فارغ ہو جاتا ہے تو اس کی لغزشیں گر (معاف ہو)چکی ہوتی ہیں ۔‘‘ترک صلاۃ یا اس میں کمی کوتاہی یا سستی کفریہ و تیرہ اور منافقانہ روش ہے نبئ اکرمﷺ نے بندے اور کفر و شرک کے درمیان حد امتیاز ترک صلاۃ کو قرار دیا ہے ۔صحیح مسلم الایمان حدیث 82) امیرالمؤمنین عمر فاروق جب زخمی تھے ‘انھوں نے نماز ادا کی اور فرمایا دجو شخص نماز نہیں پڑھتا اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘یہ تو تھی نماز کی فرضیت اور اہمیت و فضیلت جبکہ نماز کے دیگر احکام و مسائل امام نسائی نے بیان کیے ہیں جن کی تفصیل آگے اپنے اپنے مقام پر آئے گی ۔ انشاءاللہ۔
حضرت حریث بن قبیصہ ؓ نے فرمایا کہ میں مدینہ آیا تو میں نے دعا کی: اے اللہ! مجھے کوئی نیک ہم نشین میسر فرما۔ پھر حضرت ابوہریرہ ؓ کی ہم نشینی میسر ہوئی۔ میں نے ان سے کہا: میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ مجھے نیک ہم نشین میسر فرما، لہٰذا آپ مجھے کوئی ایسی حدیث بیان فرمائیں جو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو۔ امید ہے اللہ تعالیٰ مجھے اس سے فائدہ پہنچائے گا۔ آپ نے بیان کیا: میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے سنا: ”سب سے پہلے بندے سے نماز کا حساب لیا جائے گا۔ اگر وہ درست ہوئی تو وہ کامیاب و کامران ہوگیا۔ اور اگر وہ خراب ہوئی تو وہ ناکام رہا اور خسارے میں گیا۔“ ہمام کہتے ہیں: مجھے معلوم نہیں کہ یہ الفاظ قتادہ کے ہیں یا روایت( حدیث) کے ہیں۔ ”اگر اس کے فرضوں میں کچھ کمی ہوئی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: (اے فرشتو!) دیکھو، کیا میرے بندے کے پاس کچھ نفل ہیں؟ تو ان کے ساتھ اس کے فرضوں کی کمی پوری کی جائے گی۔ پھر باقی اعمال میں بھی اسی طرح (حساب) ہوگا۔“ حضرت ابوعوام نے سند میں حضرت ہمام کی مخالفت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1)ابوعوام اور ہمام دونون حضرت قتادہ کے شاگرد ہیں۔ دونوں سند کے بیان کرنے میں مختلف ہیں جیسا کہ اس حدیث اور اگلی حدیث کی سندیں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے۔ حضرت ہمام کی سند میں حضرت حسن کے استاد حریث بن قبیصہ ہیں جب کہ ابوعوام کی سند میں حسن کے استاد ابورافع ہیں۔ (2)معلوم ہوا کہ نوافل اور سنن کی ادائیگی میں قطعاً سستی نہیں کرنی چاہیے تاکہ فرائض کی تکمیل اور رفع درجات کا فائدہ حاصل ہو۔ کون ہے جو فرائض کی صحیح ادائیگی کا دعویٰ کرسکے؟
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حریث بن قبیصہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا، وہ کہتے ہیں: میں نے دعا کی، اے اللہ! مجھے کوئی نیک ہم نشیں عنایت فرما، تو مجھے ابوہریرہ ؓ کی ہم نشینی ملی، وہ کہتے ہیں: تو میں نے ان سے کہا کہ میں نے اللہ عزوجل سے دعا کی تھی کہ مجھے ایک نیک ہم نشیں عنایت فرما تو (مجھے آپ ملے ہیں) آپ مجھ سے کوئی حدیث بیان کیجئیے جسے آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہو، ہو سکتا ہے اللہ اس کے ذریعہ مجھے فائدہ پہنچائے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: ”(قیامت کے دن) بندے سے سب سے پہلے اس کی نماز کے بارے میں بازپرس ہو گی، اگر یہ درست ہوئی تو یقیناً وہ کامیاب و کامراں رہے گا، اور اگر خراب رہی تو بلاشبہ ناکام و نامراد رہے گا“ ، راوی ہمام کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم یہ قتادہ کی بات ہے یا روایت کا حصہ ہے، اگر اس کے فرائض میں کوئی کمی رہی تو اللہ فرمائے گا: ”دیکھو میرے بندے کے پاس کوئی نفل ہے؟ (اگر ہو تو) ۱؎ فرض میں جو کمی ہے اس کے ذریعہ پوری کر دی جائے، پھر اس کا باقی عمل بھی اسی طرح ہو گا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Huraith bin Qabisah said: “I arrived in Al Madinah and said: ‘Allah, make it easy for me to find a righteous companion.’ Then I sat with Abu Hurairah (RA) h, may Allah be pleased with him, and said: ‘I prayed to Allah to help me find a righteous companion.’ So tell me a Hadith that you heard from the Messenger of Allah (ﷺ) , so that Allah might benefit me from it. He said: ‘I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: “The first thing for which a person will be brought to account will be his Salah. If it is sound then he will have succeeded, be salvaged, but if it is not then he will have lost and be doomed.” — (One of the narrators) Hammam said: “I do not know whether this was the words of Qatadah or part of the report.” — “If anything is lacking from his obligatory prayers, He will say: ‘Look and see whether My slave has any voluntary prayers to make up for what is deficient from his obligatory prayers.’ Then all of his deeds will be dealt with in like manner.” (Sahih)